جمعہ کی صبح کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں دہشت گردی کا ایک افسوس ناک واقعہ رونما ہوا جس میں آخری اطلاعات آنے تک بیس لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں جبکہ چالیس کے قریب افراد زخمی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایف سی کے ایک اہل کار کے علاوہ مقتولین کی اکثریت کا تعلق سبزی فروشوں اور منڈی میں کام کرنے والے مزدوروں سے تھا جن میں ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے۔ سی سی پی او کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کے مطابق دھماکہ خیز مواد آلوؤں کی ایک بوری میں چھپایا گیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ بظاہر اس واقعے کا نشانہ ہزارہ سبزی فروش تھے لیکن مکمل تفتیش کے بعد ہی اس بات کی تصدیق ممکن ہو سکے گی۔
ہزار گنجی میں ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ گزشتہ سالوں کے دوران یہاں دہشت گردی کے متعدد بڑےواقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں زیادہ ترہزارہ سبزی فروشوں اور مزدوں کو نشانہ بنایا گیاہے۔ حکومتی اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والوں نے اگرچہ بارہا اس بات کے دعوے کئے ہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور صوبے بالخصوص کوئٹہ شہرمیں بد امنی پر مکمل قابو پایا جا چکا ہے لیکن کل کے واقعے سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دہشت گردی اب بھی یہاں کے شہریوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور دہشت گرد اور ان کے سرپرستوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کریں۔ کیونکہ عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ان کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ صوبے میں آباد بلوچ، پشتون، ہزارہ، پنجابی، سیٹلر اور سندھی سمیت تمام عوام سے بھی اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر قسم کےتفرقے یا لسانی تعصبات سے بالاتر ہوکر شہر اور صوبے میں امن کی مکمل بحالی کے لیے مل کر اپنا کردار ادا کریں گے۔