شعور کے تین مرحلے ہیں: شعور، تحت شعور اور لا شعور!
روزمرہ کی افراتفری میں ہم موقع بر محل شعورسے کام لیتے ہیں۔ مظاہر میں جو جو واقعات نمودار ہوتے ہیں انہیں شعور، تحت شعور کے حوالے مسلسل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تحت شعور کا کام ہے، کہ جو جو معلومات لاشعور میں پہلے سے موجود ہیں، انہیں وہ سلب/Delete کرتا جاتا ہے، جبکہ نئی معلومات کو وہ اپنے پاس محفوظ کرکے اس کی کاپی لاشعور کے خانے میں پھینک دیتا ہے۔ لاشعور میں وہ معلومات زندگی بھر محفوظ رہتے ہیں، مگر اکثر اچھی حالت میں اور بعض تجریدی یا نہایت دھندلے خاکے شکل میں۔
صبح جب آپ کام پر جاتے ہیں ہزاروں افراد کو دیکھتے بھی ہیں اور نہیں بھی دیکھتے ہیں؛ میوہ فروشوں کی پکارنے والی مخصوص آواز جو گاہک اکٹھا کرنے کے لئے ہوتی ہے، اسے آپ سنتے بھی ہیں اور نہیں بھی سنتے؛ رکشوں، ریڑھیوں کی بھرمار دیکھتے بھی ہیں اور نہیں بھی دیکھتے؛ ٹولیوں کی شکل میں بچوں اور بچیوں کو سکول جاتے ہوئے، دیکھتے بھی ہیں اور نہیں بھی دیکھتے؛ کھلے تنوروں اور کھلی دکانوں میں صارفین کو دیکھتے بھی ہیں اور نہیں بھی دیکھتے؛ اور سائیکل اور موٹر سائیکل سواروں اور موٹر کاروں کی ریل پیل کو دیکھتے بھی ہیں اور نہیں بھی دیکھتے……ایسا کیوں ہے؟
ایسا اس لئے ہے، کیونکہ اس افراتفری کی زیادہ ترمعمولات و معلومات پہلے سے آپ کے لاشعور میں محفوظ و مقید ہیں، جنہیں تحت شعور مسلسل Delete مار مار کر لاشعور میں گھسنے نہیں دیتا۔ پھر اچانک آپ کا ایک بہترین دوست(جو یورپ میں رہتا ہے) سامنے آ جاتا ہے۔ اب چونکہ دوست کی آمد کا یہ Data آپ کے لاشعور میں موجود نہیں ہے، چنانچہ آپ ان سے مزاج پرسی کے بعد پوچھتے ہیں: ”یار! آپ کب آئے؟“ اس طرح اس نئے ڈیٹا کو آپ کا تحت شعور، کاپی کرکے لاشعور میں پھینک کر محفوظ بھی کر دیتا ہے اور ایک کاپی(بوقت ضرورت شعور کو پیش کیے جانے پر) اپنے پاس بھی رکھ چھوڑتا ہے۔
میرے ساتھ عموماً اس طرح کا واقعہ ہوتا رہتا ہے، جہاں لاشعور کے بھلکڑ اور نیم طاق نسیاں ہوئے خانے سے کسی گم گشتہ مظہر کو شعور کے پردہ سمیں پر برآمد نہیں کر سکتا۔ بالخصوص اس روز جب دوستوں سے فلمی گانوں پر گپ شپ جاری تھی، اور میں اداکار و گلوکار رنگیلا کا ایک گانا جو مجھے پسند ہے، کا ذکر کرنا چاہ رہا تھا۔ اب جب میں گانا بولنے لگا توبھول گیا۔ میں نے جتنا بھی لاشعور اور شعور کو جھنجھوڑ کر کھنگالا اور لاکھوں جتن کیے مگر وہ کافر گانا یاد نہ آیا۔ یہ کیفیت مجھ پر دو تین دن تک طاری رہی، کہ جب بھی میں فارغ ہوتا تو اس گانے کو یاد کرنے کی کوشش ضرور کرتا۔ پھر کیا ہوا؟!……ایک رات صحن میں چارپائی پر لیٹ کر تارے گننے لگا، تو ”فٹ سے“ وہ گانا مجھے یاد آیا، وہ گانا تھا: ”میں کیڑے پاسے جاواں میں منجھی کھتے ڈاواں۔“ ایسا کیوں ہوا؟……ایسا اس لئے ہوا کہ چارپائی کی شکل میں متعلقہ مظہر کی دستیابی نے لاشعور کو بیدار کرکے اپنا کام کر دکھایا تھا۔ ٹھیک اسی طرح وہ معلومات جو لاشعور کے کونے کھدروں میں دھندلا نہیں بلکہ ڈھیروں مٹی تلے دب چکی ہیں، متعلقہ مظاہر کی دستیابی پر انہیں شعور کے پردہ سیمیں پر نمودار کرنے کی عمل کاری یا Process کو ہم وجدان، الہام یا چھٹی حس ”فرض“ کر لیتے ہیں ……”جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے، کیونکہ یہ معلومات آسمانی نہیں؛ بلکہ آپ کی اپنی تجربی معلومات ہیں، جنہیں آپ نے طاق نسیاں کیے ہیں۔“
”اب یہ وجدان، الہام یا چھٹی حس کن چڑیوں کا نام ہے، ان کا پول کھولتے ہیں۔
لاشعور کی گم گشتہ یادداشتوں اور معلومات میں سے(متعلقہ مظاہرکی دستیابی پر) مخصوص اس یادداشت کا برآمد ہونا، جسے عقل/شعور اس حد تک فراموش کر چکا ہو، کہ وہ نئی نئی لگے۔ اس طرح کے انسانی معجزاتی طرزِتفکر کو ہم ”وجدان، الہام یا چھٹی حس“ فرض کر لیتے ہیں۔
انیسویں اور بیسیوں صدی کے فرانسیسی فلسفی برگسان نے اپنی تحاریر میں لفظ(وجدان) کو اس قدر استعمال کیا، کہ بعد میں پوری زندگی اس نے پشیمانی میں گذار دی۔ مجھے فکر لاحق ہے کہ آپ اس جیسا نہ بنیں۔
”چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی”