آج یکم جنوری 2024(قبل مسیح) کادن ہے اور ہم زرعی انقلاب عہد کے بیچوں بیچ غلام دارانہ نظام میں رہ رہے ہیں۔ یہاں محض پیٹ کی آگ بجھانے کی عوض ہم غلاموں سے زرعی زمینوں، کانوں یا دستکاری کے کارخانوں میں بیگار لئے جاتے ہیں اور اگر کسی آقا کی دسترس میں درج بالا اثاثے نہیں، تو وہ ہمیں گدھوں، خچروں اور گھوڑوں کی طرح دوسروں کے ہاں کرایوں پر چلاتے ہیں اور خود عیاشیاں کرتے ہیں۔ ہمارا جینا اور مرنا آقاؤں کے مزاج پر انحصار کرتا ہے۔
جب ہم(غلام) بوڑھے یا ناکارہ ہو جاتے ہیں، تو کام چوری کی تہمت میں آقا کی طرف سے ہم پر سرعام کوڑے بھی برسائے جاتے ہیں۔ اگر کسی آقا نے ہم میں سے کسی کو جان سے مار بھی دیا، تو کیا؟ آقا ہونے کے ناطے(قانون کے مطابق) ان سے کوئی بازپرس یا محاسبہ بھی نہیں ہوتا، کیونکہ انہوں نے ہمیں مثقال بھر زر کے عوض خریدا ہواجو ہے۔ ہم غلام مختلف ممالک سے دھر لیے گئے ہیں، اس لئے ہم ایک دوسرے کی زبان نہیں جانتے۔ اس طرح ہم کوئی آزادی کی تحریک بھی نہیں چلا سکتے اور افزائش نسل تو پہلے سے ہی ہم پر ممنوع قرار دیا گیا ہے، کہ اپنی نئی نسل کو کچھ سکھایا پڑھایا جا سکے۔
بھاگ نکلنے کے خدشے میں یہاں ہم سب کی گردنوں میں آقاؤں کی طرف سے مخصوص طوق پہنائے جاتے ہیں، جن پر عموماً یہ جملہ جلی الفاظ میں کندہ ہوتا ہے:
“I have run away, Catch me. If you take me back to my master (xyz), you’ll be rewarded.”
”میں بھاگ نکلا ہوں، مجھے پکڑو۔ اگرتم مجھے میرے مالک(xyz) کے پاس واپس لے جاؤگے تو وہ تمہیں انعام دے گا۔“
من حیث الانسان ہمارے غمگساروں کو آنے میں ابھی بہت دیر ہے اور ہم اس وقت تک یہ تمام کچھ جھیلتے رہیں گے۔ کیونکہ انٹستھنیس کو آنے میں ابھی 1578، ڈائیوجنیز کو1612، ایپی کیورس کو 1683 اور کارل مارکس کو 3842 سال باقی ہیں۔
انسانیت کے علمبردارو! آپ سب کے ظہور کا منتظر……ایک ادنیٰ غلام!
بہرکیف: Happy new year!