4 اپریل2021ء بروز اتوار شام پانچ بجے، ہم موسیٰ کالج میں ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مصباح لٹریری فیسٹیول میں پروفیسر ہود بھائی کی نشست میں شریک ہونے گئے۔ نشست میں بحث کا عنوان تھا ”قوم کسے کہتے ہیں؟“ انہوں نے لفظ ”قوم“ کی بابت نہایت خوبصورت توضیحات پیش کیں اور یہ دلچسپ دورانیہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا، جن کے جوابات ہود بھائی نے نہایت حوصلے اور اپنے علمی نچوڑ سے دیئے۔ انہوں نے یہ کہہ کر بات کو آگے بڑھایا، کہ: ”لفظ قوم کا احاطہ کوئی خاص مذہب، زبان، یکساں ریت و رواج، رنگ و نسل یا کوئی مخصوص قبیلہ نہیں کر سکتا۔“ بعد میں انہوں نے اپنے مدلل شواہد سے ان تمام کو کسی قوم کی تشکیل کے لئے نادرست قرار دیا۔(جو کہ من و عن درست تھا) کیونکہ درج بالا خصوصیات سے زیادہ سے زیادہ ایک معاشرہ تشکیل تو پا سکتاہے، مگر اسی معاشرے کو کسی قوم کا نام دینا، نادرست ہے۔ بہرحال عین ممکن ہے کہ پروفیسر ہود بھائی نے وقت کی قلت کو ملحوظ خاطر رکھ کر مزید لفظ ”قوم“ کی توضیح نہیں کی ہوگی، جس کی وجہ سے ہمارے اذہان مختلف بکھیڑوں میں پھنس کر رہ گئے اور آج اس واحد عنصر کو تلاشنے پر مجبور ہیں جو(انسانیت کا بند بند جدا کرکے) کسی بھی صورت اس لفظ ”قوم“ کا احاطہ بہ آسانی کر سکتا ہو، جسے ہود بھائی نے ہم پر واضح نہیں کیا۔ تو آیئے، سب سے پہلے ہم اس عہد سے رجوع کریں جہاں ”قوم“ کا تصور ناپید تھا۔ یعنی ابتدائی کمیونزم!(یا Primitive communism)
مختلف قبائل اور خاندانوں پر مبنی حلیمانہ انسانی گروہی معاشروں کا یہ عہد کم و بیش پچاس سے ساٹھ لاکھ سال تک رواداریوں سے بھرپور نہایت کامیابی کے ساتھ چلتا رہا۔ اس عہد کے آخری مرحلے کو ہم شکاری دور(Hunter-gatherer) بھی کہتے ہیں، جس میں شکار سے حاصل کیے گئے جانوروں کے گوشت و پوست پر پورے قبیلے کا برابر حق ہوتا تھا۔ اس دور میں انسان جتھوں کی صورت میں شکار کرتے تھے اور شکار شدہ جانوروں کے گوشت سے وہ اپنی خوراک حاصل کرتے، ان کی کھالوں سے پورا قبیلہ گرم فرضی لباس بنا کر پہنتے اور ان کی ہڈیوں سے مزید شکار واسطے مختلف ہتھیار بناتے۔(کنیڈا اور امریکہ کی سرحد پر ایک ایسا قبیلہ آج بھی آباد ہے، جسے ”بلیک فٹ“ کے نام سے ہم جانتے ہیں۔ اس قبیلے نے ابھی تک ابتدائی کمیونزم کے شکاری دور کو عبور نہیں کیا ہے۔ یہ قبیلہ آج بھی شکار کیے گئے جنگلی بھینسوں کی کھال سے اپنے لئے کپڑے، جوتے اور بالخصوص رہنے کے لئے خیمے وغیرہ بناتے ہیں اور ان کے ہاں انفرادی شکار کی سخت ممانعت ہے۔ مادرسری نظام کے تحت آباد قبیلہ بلیک فٹ میں یہ خیمے قبیلے کی عورتوں کی ملکیت ہوتے ہیں، جنہیں شادی کے موقع پر قبیلے کے طرف سے لڑکیوں کو جہیز میں دیا جاتا ہے اور ان کو پورا قبیلہ مل کر تیار کرتا ہے۔ یہ لوگ گوشت پکانا نہیں جانتے، بلکہ یہ آج بھی اٹھارہ لاکھ سال قبل کے انسانی رکن ”ہوموایریکٹس“ کی طرح اسے بھون کرکھا لیتے ہیں) مجموعی طور پر ابتدائی کمیونزم انسانی انواع کے ہومی نیڈز، آسٹریلوپیتھی کس، ہوموہیبی لیس، ہوموایریکٹس، ہوموسیپی ینراور زرعی انقلاب کے شروعاتی ساڑھے تین ہزار سال تک جاری رہا اور اس عہد کے انسان لفظ قومیت، قوم یا اقوام کے نام سے نابلد تھے، کیونکہ وہ مختلف خاندانوں یا قبیلوں کی شکل میں رہتے تھے۔
اس کے بعد اتفاقیہ طور پر عورتوں کے ہاتھوں تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار سال پہلے زرعی انقلاب(Agricultural revolution) کا آغاز ہوا، اس وقت کی پہلی فصل مکئی(جوار) تھی۔ اس مرحلے میں بھی انسان پہلے کی طرح قبیلوں ہی کی شکل میں رہتے تھے اور حاصل پیداوار پورے قبیلے کی مشترکہ ملکیت ہوتی تھی۔ یعنی وہ اپنے سابقہ دستور(کمیونزم) کے تحت آگے بڑھتے رہے۔ یاد رہے، کہ اس عہد تک بھی انسان لفظ ”قوم“ کے نام سے ناآشنا تھے، جو مزید ساڑھے تین ہزار سال تک چلتا رہا اور بالآخر پیچھے سے آنے والے غلام دارانہ نظام نے اس عہد کا گلا گھونٹ کر اسے آخری رمق لینے پر مجبور کیا۔(بطور یادداشت: اس عہد تک مردوں کو کاشتکاری کی اجازت نہیں تھی۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے: ”چونکہ عورتیں بچے جنتی ہیں اور بچے جننا زرخیزی کی علامت ہے، چنانچہ زمینوں میں زرخیزی بھی محض عورت ہی لا سکتی ہے۔“ مگر بعد میں غلام دارانہ نظام میں آقاؤں نے یہ کام مرد غلاموں سے بھی لینا شروع کیا)
وافر پیداوار کو دیکھ کر لالچی زورآور طبقے نے اب زرعی اراضیوں اورکھیت مزدوروں کی صورت محنتی اور خوبصورت عورتوں پر یہاں تک قبضہ جمانا شروع کر دیا، جب تک اس عہد کو(آٹھ ہزار سال قبل) غلام دارانہ دور میں نہ گھسیٹا۔ بعد ازاں اسی زورآور طبقے کی ذاتی ملکیتوں میں روزافزوں اضافہ ہوتا چلا گیا اور کمزور غلاموں کی شکل اختیار کرتی چلی گئیں۔
”جتنا بڑا غاصب؛ اتنا ہی بڑا رتبہ!“
اب چونکہ تمام اراضیاں چند ہاتھوں میں سمٹ چکیں، تو مزید لالچ نے شرفا کی آپس میں رزم آرائیاں شروع کردیں، جس کے نتیجے میں مختلف خطوں میں مختلف زورآور افرادبادشاہوں کی صورت میں ابھرے اور غصب کی گئی اراضیوں پر ہر بادشاہوں نے اپنی اپنی باڑھ باندھ کر اپنی اپنی بادشاہتیں قائم کیں۔ اس طرح یہ دنیا مختلف شہری ریاستوں میں کچھ اس انداز سے تقسیم ہوئی، کہ تمام ریاستوں کے رہنے والے الگ الگ مختلف قوموں کے نام سے منسوب ہوئے۔ یوں الگ الگ ”قوم“ ہی کے نام پر المناک طریقے سے آج ایک ریاست کے بسنے والے انسان دوسری ریاست کے انسانوں سے بالکل کٹ کر رہ گئے ہیں۔
”اس نہج پر بات صاف ہو جاتی ہے، کہ وہ واحد عنصر ’ریاست‘ ہی تھا جس نے انسانوں کو مختلف اقو ام میں تقسیم کر دیا۔“
ہر ریاست کا اپنا الگ آئین و قانون رکھنا؛ اور باج گزار عوام سے محصول اکٹھا کرنا وغیرہ اس وقت کی ہر شہری ریاست کے لوازمات میں شامل تھے۔(دراصل آج بھی مروجہ ریاستی قوانین انہی شرفا ہی کے بنائے ہوئے ہتھکنڈے ہوتے ہیں، جن سے وہ اپنی ملکیتوں کی حفاظت کے لئے مسلح انتظامیہ سے مدد لیتے ہیں اور ریاست کی طرف سے محصول اندازیوں کا کثیر حصہ بھی انہیں کے خزانوں میں بنا اکراہ و اجبار چلا جاتا ہے)
بات یہیں پر نہیں رکتی؛ کیونکہ معاملہ اب بہت آگے نکل چکا ہے۔ یہ شہری ریاستیں ایک دوسرے کے مزیدعلاقوں پر قبضہ جمانے اور مقبوضہ ریاست کے عوام کو غلام بنانے کے لئے آپس میں جنگیں بھی لڑتی رہیں، جس کا خمیازہ ہمیشہ انسانیت ہی کو بھگتنا پڑا، جس کی وجہ سے شہری ریاستیں وسعت پاتی گئیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کشت و خون کا یہ سلسلہ پچھلی صدی تک جاری رہا، جس کے نتیجے میں آج پوری انسانیت مختلف اقوام کی صورت ایک سو پچانوے(195) ٹکروں میں بٹ چکی ہے۔
پس نوشت: نہایت غور و خوض کے بعد رقمطراز یہ سوچنے پر مجبور ہے، کہ جہاں ابتدائی کمیونزم میں قوموں کا وجود نہیں تھا، تو جدید طرز کمیونزم میں بھی قوموں کا وجود باقی نہیں رہے گا اور مختلف قوموں کو تشکیل دینے والا واحد عنصر ”ریاستیں“ بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں گی۔ کیونکہ اُس وقت کرہ ارض کے گرداگرد بسنے والے تمام انسان ایک ہی کمیونٹی یا قوم کہلائیں گے اور افلاطون کا ہمعصر چوتھی صدی قبل مسیح کے ڈائیوجنیزکلبی کی بات درست ثابت ہوگی، جو کہتا ہے کہ: ”میں پوری دنیا کا شہری ہوں۔“
پس پس نوشت: میری اس تحریر کو جناب ”پروفیسرہود بھائی“ پر نقد نہ سمجھی جائے، کیونکہ میں نے انہی کی بات کو آگے بڑھانے کی سعی کی ہے۔