کتاب کی اہمیت سے انکار ناممکنات میں سے ہے۔ کتاب کی اہمیت و ضرورت پر بہت کچھ لکھنا بھی بہت کم ہے۔ سوچ رہا تھا اس دن کی مناسبت سے کیا لکھوں ،کیسے لکھوں، کتنا لکھوں؟ کتاب کے بارے میں کچھ سطور لکھنے سے کیا میں کتاب کے ساتھ انصاف کر سکوں گا ؟ کافی سوچ بچار کے بعد آخر فیصلہ کیا اس دن کی مناسبت سے کچھ نہ لکھنا بھی بڑی زیادتی ہے تو اٹھ کر قلم اور کاغذ اٹھانے پر مجبور ہوا اور بڑی مشکل سے یہ سطور آپ کے زیر نظر لا سکا ہوں۔ کتاب کی اہمیت کا کیا کہنا صرف چند اقوال حاضر خدمت ہیں۔
اگر آدمی دس کتابیں پڑھتا ہے گویا اس نے دس ہزار میل سفر طے کیا۔ چینی کہاوت۔ ایک کمرہ بغیر کتابوں کے ایسا ہے جیسے جسم بغیر روح کے۔ فرانز کافکا۔
کتابوں سے بھری لائبریری ایسی جگہ ہے جہاں ہم ماضی اور حال کے دیوتاؤں سے آزادی کے ساتھ گفتگو کرسکتے ہیں۔ نورامیس۔
تاریخ میں چند غیر مہذب وحشی اقوام کو چھوڑ کر کتابوں نے ہی لوگوں پر حکومت کی۔ شہباز عزیزی
اگر کتاب کی تاریخ پر بات کی جائے تو ایسا ہے کہ کاغذ کی دریافت سے پہلے انسان مٹی کے تختوں، درختوں کی چھال اور ہڈیوں پر لکھتے تھے۔ کاغذ کی ایجاد سب سے پہلے چین میں ہوئی۔ “تسائی لون” نامی شخص جو چین کی ہن سلطنت سے وابستہ تھا، نے 105عیسوی میں کاغذ دریافت کیا ۔شروع میں یہ کاغذ چائے خشک کرنے اور دوسری ضروریات کے لئے استعمال ہوتا تھا بعد میں سانگ سلطنت میں یہ کرنسی کے لیے استعمال ہونا شروع ہوا۔ دریائے دجلہ و فرات یعنی میسوپوٹیمیا کی تہذیب سے برآمد شدہ مٹی کے الواح وادی نیل کے تہذیب مصر سے برآمد ہونے والی ہائباٹرس یعنی درخت کی چھال سے تیار کئے ہوئے مواد پر دو قدیم تہذیبوں کے ابتدائی زمانے کی تحریری کتابیں کہی جاسکتی ہے۔
1445 میں جرمن جوہانز گوٹنبرگ نے پرنٹنگ پریس ایجاد کی تب سے کتاب کو زندگی مل گئی اور کتابوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا جو کہ اب تک جاری ہے۔ خیر کتاب کی تاریخ کے بارے میں آپ شایان قدوائی کی کتاب “کتاب کی تاریخ” اور ظہیر الدین بابر کے آرٹیکل “کتاب اور کتاب خانے کی تاریخ” سے جانکاری حاصل کرسکتے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اپنی پسندیدہ کتابوں کی طرف ۔ بطور تاریخ اور لٹریچر کے طالب علم ہم کو تاریخ اور لٹریچر کے کتابوں سے بڑا انس ہے۔ جن حضرات کو دنیا کی تاریخ پڑھنے کا شوق ہے وہ یوال نوح حراری کی Sapiens- A Brief History Of Humankind” ، بی وی راؤ کی چھوٹی سی کتاب “World History” نہرو صاحب کی “گلیمپسیز آف ورلڈ ہسٹری” اور بل بریسن کی کتاب “Short History Of Nearly Everything”سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اور جن کو اس خطے یعنی برصغیر کے تاریخ کے بارے میں کچھ پڑھنا ہے وہ نہرو کی “Discovery Of India” پڑھیں ، اور جن قوم پرست حضرات کو مطالعہ پاکستان پر شکوک ہیں وہ کے۔کے۔عزیز کی کتاب “Murder of History” اور زاہد چوہدری اور حسن جعفر زیدی کی 12 جلدوں پر مشتمل کتاب “پاکستان کیسے بنا” پڑھ کر اپنی تشفی کرسکتے ہیں یہ کتابیں تاریخ کے طالب علموں کو تاریخی مغالطوں سے باہر آنے میں خاصی مددگار ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح تقسیم ہند پر مولانا آزاد کی کتاب India Wins Freedom اور اردو میں “تقسیم ہند” پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں بھٹو صاحب کی کتاب “The Myth Of Independence”، بینظیر بھٹو کی کتاب “Reconciliation:Islam, “Democracy and the West” ولی خان صاحب کی کتاب “Facts are Facts” باچاخان کی بائیو گرافی “زما ژوند او جدوجہد” گاندھی جی کی کتاب “تلاش حق”، سبط حسن کی کتاب “افکار تازہ” اور مذہب کی اصلاح پر علامہ اقبال کے خطبات پر مشتمل کتاب “Reconstruction Of Religious Thoughts “زبردست کتابیں ہیں۔ اور جن حضرات نے اسلامی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لینا ہے ان کو لیسلی ہیزلٹن کی کتاب “After The Prophet” اور “The First Muslim” پڑھنے کی ضرورت ہے۔عربوں کی تاریخ اور ثقافت پر سید امیر علی کی کتاب “History Of Saracen” بھی پڑھنے لائق ہے۔ اسی طرح خدا کی تاریخ پر کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب “History of God” مکمل اور جامع کتاب ہے۔اسرائیل کی تاریخ پر کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب Jerusalem : One City Three Faiths” بھی بہت اچھی ہے۔ اسی طرح جن کو لٹریچر کی کتابیں پڑھنے کی عادت ہے وہ انگریزی زبان میں جان ملٹن کی “Paradise Lost” اور “Paradise Regain ” ٹالسٹائی کا شہرہ آفاق ناول “وار اینڈ پیس”، دوستوفسکی کا ناول “کرائم اینڈ پنشمنٹ” میکسم گورکی کا ناول “The Mother” والٹیئر کی Candide” نطشے کی” Thus Spoke Zarathustra” اور البرٹ کامیو کی “The Rebel The Stranger” پڑھنی چاہئیے ۔ اُردو ادب کے پرستاروں کے لیے قدرت العین حیدر کی ناول “آگ کا دریا” عبداللہ حسین کی “اداس نسلیں” منٹو صاحب، کرشن چندر، انتظار حسین اور عصمت چغتائی کے افسانے بہترین انتخاب ہوسکتے ہیں۔ پشتو ادب اور تاریخ کے بارے عبد الحئی حبیبی صاحب کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب “د پشتو ادبیاتو تاریخ” “د افغانستان لنڈ تاریخ” حسن کاکڑ کی کتاب” Pashto Pashtoon And Afghanistan” عبد الرحیم مندوخیل کی کتاب “افغان او افغانستان” نور محمد ترکی صاحب کے ناول “سپین” “د بنک مسافری” “سنگسار” ,کلیات خوشحال خان خٹک خوشحال خا ن خٹک کی زندگی پر زلمی ہیواد مل کی کتاب “ننگیالی د زمانے” بہترین کتابیں ہیں۔ سیاست پر میکاؤ لی کی کتاب “The Prince” ہنس جے مارگن تھا کی کتاب”Politics Among Nations”اینڈریو ہیووڈ کی کتاب “گلوبل پولیٹیکس” پڑھنے سے سیاست سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ اور جو سیاسی کارکن ہونے کے باوجود کارل مارکس کی تعلیمات سے نابلد ہیں وہ اپنی حالت پر رحم کرکے جلد مارکس سے رجوع کریں۔ اگرچہ مارکس کی کتابیں “داس کیپیٹل” اور “کمیونسٹ مینی فیسٹو” سمجھنا ہم جیسے طالب علموں کے لیے مشکل ہے تو مارکسزم کو سمجھنے کے لیے ایلن ووڈز کی اردو میں ترجمہ شدہ کتاب “مارکسزم عصر حاضر کا واحد سچ” ٹیری ایگلٹن کی کتاب “Why Marx Was Right” لینن کی کتاب “سٹیٹ اینڈ ریولوشن” فریڈرک اینگلز کی “سوشلزم: یوٹوپین اور سائنٹفک” پڑھ کر مارکسزم سمجھ سکتے ہیں۔ فلسفے کے شیدائیوں کے لیے جو فلسفے کی اےبی سی سیکھنا چاہتے ہیں وہ رابرٹ سولمن کی کتاب “The Big Questions” ول ڈیورانٹ کی سٹوری آف فلاسفی، “پلیژر آف فلاسفی” رسل کی “ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی” اردو میں جلال پوری صاحب کی کتاب”خردنامہ” اور قاضی جاوید کی کتاب “فلسفہ سیریز” پڑھ کر فلاسفی سمجھ سکتے ہیں۔ ویسے اچھی اور مفید کتابیں تو بیشمار ہیں لیکن ان میں سینکڑوں مزید اچھی کتابوں کا اضافہ ناگزیر ہے۔
- چند مفید اور ضروری کتابیں ۔۔۔ افگار مندوخیل - 05/05/2021