خوشی کی تلاش
تحریر: میر افضل خان طوری
اس دنیا میں سب سے مشکل کام خوش رہنا ہے۔ بہت سے لوگ اچھی صحت ، دولت، شادی اور بہترین ملازمت کے باوجود کیوں خوش نہیں ہیں؟ خوشی کے راز کو پانے کیلئے انسان صدیوں سے تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ انسان ہر چیز، ہر بات اور ہر کیفیت میں خوشی کو تلاش کرتا ہے۔ دراصل انسان کی اصل خوشی اس کے اندر موجود ہے نہ کہ باہر۔ حقیقی خوشی انسانی قلب کا اندرونی سکون اور اطمینان ہے۔ اگر قلب مطمئن نہ ہو تو باہر کی چیزیں اور خوبصورت مناظر انسان کو کبھی خوش نہیں کر سکتیں۔
ایک مطمئن انسان تھوڑی سی بات پر بھی خوش ہوجاتا ہے مگر ایک غیر مطمئن انسان کروڑوں مال و دولت اور ہر طرح کی آسائیشوں کے باوجود بھی خوش نہیں رہ سکتا ۔
جب انسان خوش ہوتا ہے تو یہ خوشی انسان کے چہرے پر مسکراہٹ ضرور لاتی ہے۔ پھر یہ مسکراہٹ دوسرے انسانوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ کا باعث بنتی ہے۔
اگر کوئی شخص شدید بیمار ہو تو آپ کی ذرا سی مسکراہٹ سے اس کو نئی زندگی کی نوید مل جاتی ہے اور اس کے چہرے پر سکون کے آثار نمودار ہو جاتے ہیں۔ اس کو بیماری کے دکھ کا احساس کم ہونے لگتا ہے۔
اسلام نے مسکرا کر ملنے کو صدقہ جاریہ سے تعبیر کیا ہے۔
جب انسان مسکراتا ہے تو اس کے چہرے کے تمام مسلز ایکٹو ہوجاتے ہیں۔ اس لیے مسکرانے والے انسان کا چہرہ ہمیشہ تر و تازہ و شاداب رہتا ہے۔
جو انسان ہمیشہ غیض و غضب اور غصہ کی حالت میں رہتا ہے اس کا چہرا بھی بگڑ جاتا ہے۔ اس کیفیت میں بہت خاص قسم کے مسلز ایکٹو ہوتے ہیں جو انسانی چہرے کو بگاڑ دیتے ہیں اور چہرہ بھیانک لگنے لگتا ہے۔
لیکن اس خوشی اور مسرت کے اظہار کیلئے بھی موقع و محل کی ضرورت ہوتی ہے۔
اپنے بچوں کے ساتھ خوشی کا اظہار کرنا اور ان سے پیار کرنا بہت اچھی بات ہے مگر جب کوئی یتیم بچہ سامنے کھڑا ہو اور اس وقت آپ کا یہ عمل شرافت انسانی کے خلاف ہوجاتا ہے۔
مسکراہٹ بہت اچھی بات ہے لیکن جب انسان کسی کے جنازے میں شریک ہو اور مسکرا رہا ہو تو اس وقت اس سے بری بات کوئی اور نہیں ہوسکتی۔
کسی بھی غم زدہ انسان کے سامنے مسکرانا انسانی عقل و شعور کے برخلاف ہے۔
ان تمام باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کا ہر عمل موقع و محل کے اعتبار سے ہونا چاہئے۔
ہر وہ خوشی جس میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو شریک کیا جائے اصل خوشی ہوتی ہے۔ خوشیاں اور مسرتیں ہمیشہ بانٹنی چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان سے مستفید ہو سکیں۔