اجتہاد اورتقلید کی مختصر تاریخ ۔۔۔ اسحاق محمدی

میں عرصے سے اجتہاد، مجتہد اور تقلید کے موضوع پر کسی اچھے مستند تحقیقی منبع (کتاب یا مقالے) کی جستجو میں تھا۔ خوش قسمتی سے گذشتہ دنوں ایک معتبر منبع ہاتھ آگیا جو ایک ضخیم تحقیقی کتاب کے ایک باب (چیپٹر) کا حصہ ہے۔ اصل تحقیقی کتاب کا نام ہے “تاریخ ایران و اسلام” جب کہ اس کے ایک باب کا عنوان ہے “پیامدھای دو جریان اصولی گری و اخباری گری در سازمان روحانیت و تحولات دورہ قاجاریہ”۔ اسے دو محقیقین ڈاکٹر جھان بخش ثواقب اسسٹنٹ پروفیسرشعبہ تاریخ لرستان یونیورسٹی اور سروش آزاد بخت (ایم اے) در تاریخ ایران اسلامی نے مشترکہ طورپر مکمل کیا ہے۔ مقالہ میں سب سے پہلے شیعہ اثناء عشری کے دو اہم مکاتب فکر کی مختصر تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اخباری مکتبہ فکراور اصولی مکتبہ فکر کے ناموں سے مشہور ہیں۔ بعد ازآں ان دونوں مکاتب فکر کے بنیادی اختلافات کا ذکرکیا گیا ہے جس میں سے میں، دو بنیادی اختلافات کے ذکر پر ہی اکتفا کرتا ہوں جو کہ اس طرح سے ہیں:
اصولی مکتبہ فکر:
1- اجتہاد کو واجب عینی قرار دیتے ہیں اور شیعہ اثناء عشری کو دو گروہوں مجتہد اور مقلد میں تقسیم کرکے مقلدین پر کسی مجتہد کی اطاعت کو واجب قراردیتے ہیں۔ جبکہ
اخباری مکتبہ فکر:
1- تقلید کو سرے سے حرام سمجھتے ہیں اور اس کے بجائے براہ راست امامان معصوم کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک جب امامان معصوم نے دینی احکامات کو ہر لحاظ سے مکمل کردیا ہے تو جاکر تحقیق کرکے ان کا حل وہی سے ڈھونڈ نکالو۔
محقیقین کے مطابق دونوں مکاتب فکر میں کافی بڑے نام آتے ہیں جیسے اخباری مکتب فکر میں “الکافی” حدیث کی کتاب کے مصنف شیخ یعقوب کلینی اور من لا یحضرالفقیہ کے مصنف شیخ مفید (یہ دونوں کتابیں شیعہ اثناء عشری کی حدیث کی چار بنیادی کتابوں میں شامل ہیں) سمیت دیگر درجنوں فقہا کے نام آتے ہیں، اسی طرح اصولی مکتبہ فکر میں شیخ طوسی اور شیخ مرتضی انصاری سمیت دیگر درجنوں جید فقہا کے نام آتے ہیں۔ آگے چل کر مصنفین نے پہلی بار ایک باقاعدہ مرکز کے قیام اور وجوب تقلید کے ساتھ ساتھ خمس، زکات، فطرات، نذرات کی باقاعدہ جمع آوری کی تاریخ بتائی ہے جو اس لحاظ سے کافی دلچسپ ہے کہ اس کی تاریخ صرف 175 سال قبل تک ہی جاتی ہے۔ قبل ازایں ہر شہر کے بڑے علماء یہ ٹیکسز جمع کرکے اسی شہر کے مستحق غریبوں میں خرچ کرتے تھے۔ اس کی شروعات شیخ محمد حسن نجفی الموتفی 1849ء نے کی۔ اسی صاحب نے مجتہدین میں اعلم اور غیراعلم کی کیٹیگری کا بھی اضافہ کردیا اور وفات کے وقت شیخ مرتضی انصاری کو اپنا جانشین بنا کر ایک نئی روایت کی بنیاد بھی رکھ دی۔ جب اصولی مکبہ فکر کے پاس پیسے آنے لگے تو ان کے سامنے شیعہ اخباری مکتبہ فکر کمزور پڑتا گیا۔ فی زمانہ اخباری شیعہ اثناء عشری کی ایک تعداد انڈیا، پاکستان، بحرین، تنزانیہ اور افغانستان میں آباد ہیں۔ ہزارہ اخباریوں کی ایک قابل ذکر تعداد افغانستان کے صوبہ غزنی میں آباد ہے۔
محققین کے مطابق اصولی مکتبہ فکر پرہر دور میں کافی مدلل تنقید ہوتی رہی ہے۔ ان تنقید کرنے والوں میں موجودہ دور میں آیت اللہ مطہری، آیت اللہ بہشتی، آیت اللہ بروجردی سمیت کافی دیگر فقہاء اور اہل علم حضرات شامل ہیں، جن میں سب اہم تنقید یہ ہے کہ اصولی علماء زیادہ توجہ احادیث اور روایات پر مرکوز رکھتے ہیں اور اصل منبع قران کریم پر کم توجہ دیتے ہیں۔ ان میں سب سے دلچسپ تبصرہ آیت اللہ بروجردی کا ہے جن کے مطابق

“ہمارے طلبا کی پہلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کسی تاریخی منبع کو ڈھونڈیں اور پھر اس پر بحث و مناظرے میں لگ جائیں”۔

یہاں یہ تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ قبل ازایں بھی اس موضوع پرکافی کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں شیخ بہای الموتوفی 1621ء کی کتاب جامع عباسی سب سے زیادہ مہشور اس لحاظ سے ہے کہ ایک تو اس کی زبان فارسی ہے اور دوسری یہ صفوی حکمران شاہ عباس کی فرمائش اور مالی معاونت سے پایہ تکمیل تک پہنچی۔ دوسری طرف اگر شیعہ اجتماعی مفادات کے حوالے سے دیکھا جائے تو متاسفانہ اجتہاد کے اس طاقتور ادارہ نے شرعی ٹیکسز جمع کرنے کے علاوہ باقی موضوعات کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں عبدالرحمان خان نے ہزارہ قوم کی نسل کشی کرکے ان کی کم از کم 70٪ آبادی کا وحشیانہ طریقے قتل عام کیا اور ان کی تمام زرخیز زمینوں کو اپنے پشتون قبائل میں تقسیم کردیا لیکن ایک آدہ مجتہد کو چھوڑ کر باقی کسی کو لب کشائی کی توفیق نہیں ہوئی۔ خیر وہ ماضی بعید کی بات تھی۔ اسی اکیسویں صدی کے دوران ہی افغانستان میں وحشی طالبان نے ایک بار پھرہزارہ نسل کشی شروع کی جو اب تک جاری ہے جب کہ دوسری طرف بیس سالوں تک پاکستان کے اندر شیعہ قتل عام اور ہزارہ نسل کشی کی کاروایاں جاری رہیں لیکن سب عظام کرام نے چپ کا روزہ رکھا، جب کہ اسی دوران اگر سینکڑوں نہیں تو درجنوں ایرانی مجتہدین آئے روز وا فلسطینا کے نعرے بلند کرتے رہے!؟؟۔
جہاں تک تقلید کے واجب ہونے کا تعلق ہے، اس بارے میں آیت اللہ علی محقق نسب کا خیال ہے کہ تمام واجبات کے احکامات جیسے توحید، ختم نبوت، قیامت، روزہ، نماز، زکات، حج کے احکامات اللہ تعالی نے خود دیے ہیں اور رسول اللہ نے ان کی تفصیلات بتائی ہیں، جبکہ باقی جزوی تفصیلات امامانؑ نے بتائی ہیں لہٰذا اب کسی اور طبقہ یا گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس میں کسی نئے حکم واجب کا اضافہ کرے۔ ہاں وہ ایک سپیشلسٹ کے طور پر اپنا نقطہ نظر بیان کرسکتا ہے، باقی یہ عوام الناس کا حق ہے کہ کس کی رائے کو قبول کرے اور کس کی رائے کو رد کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ کسی ڈاکٹر، انجنیر، آرکیٹیکٹ یا کسی دیگر شعبے کے اسپیشلسٹ کی آراء کو قبول کرنے یا رد کرنے کا حق رکھتے ہیں (ولایت فقیہ و مرزھای جغرافیای)۔ تاریخ کے تناظرمیں دیکھا جائے توکبھی کسی مجتہد، شیخ الاسلام یا مفتی اعظم نے پرنٹنگ کو، کسی نے ریلوے انجن، کسی نے ٹیلی فون اور ٹی وی وغیرہ کو حرام قراردے رکھا ہے لیکن اب وہ سب حلال کے کھاتے میں شمار ہو رہے ہیں یعنی ان سب کا نقطہ نظرغلط۔ ثابت ہوا ہے۔ لیکن خسارہ ان کے بیچارے مقلدین اور مانے والوں کو ہوا ہے۔ مزید برآں شیعہ مجتہدین آج بھی کوئی موسیقی کو مطلقاً حرام کہہ رہے ہیں جبکہ دیگر اس کو حلال کہہ رہے ہیں۔ یہی حال شطرنج، موٹربائیک، بائسیکل کے معاملے میں ہے۔ ایرانی ڈکٹیٹر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کی بنی کوویڈ ویکسینز کو حرام قراردے کر لاکھوں ایرانیوں کی جانیں لیں۔ ان کی اموات کے ذمہ دار تو یہی عظمی صاب ہے۔ رمضان یا شوال کے معاملات بھی اسی طرح ہیں۔ آسٹریلیا میں مقیم ایک دوست کہہ رہا تھا کہ اس سال آسٹریلیا میں مقیم صرف شیعہ برادری نے ان مجتہیدین کی وجہ سے تین عیدیں منائیں۔ یہی حال کھانے پینے کے معاملات میں ہے جو ان کا سرے سے شعبہ ہی نہیں۔ لیکن وہ بڑی بے شرمی سے حلال، حرام کے دھڑا دھڑ فتوے دے رہے ہیں اور کسی کو اف تک کہنے کی جرات نہیں۔ یاد رہے جن کھانوں کو خود اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے ان کا مسلہ الگ ہے۔ اب تو خیر سے کھانے پینے کے معاملے میں میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب یہ شعبہ عام میڈیکل ڈاکٹرز کے ہاتھوں سے تقریباً نکل چکا ہے اور اب ان کی جگہ تیزی سے ڈائتیشنسٹ اور نیوٹریشنسٹ لیتے جارہے ہیں۔ یہ مشکل صرف مسلمانوں، ہندووں وغیرہ کے ساتھ نہیں قرون وسطی کے کرسچنز کے ساتھ بھی ہاتھ ہوا تھا۔ مثلاً جب اٹلی میں بجلی کی تاریں بچھائی جارہی تھیں تو پاپائے اعظم نے یہ کہ کر اسے حرام قرار دیا تھا کہ دن اوررات خدا نے مقرر کررکھے ہیں، چونکہ بجلی کا استعمال اس خدائی نظام کی کھلی خلاف ورزی ہے لہذا حرام ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان بننے کے بعد جب پہلے نوٹوں کی چھائی ہوئی تو بے شمار ملاؤں نے یہ کہ کر اسے حرام قرار دیا کہ ان پر قائد اعظم کی تصویر تھی اور اسلام میں اس وقت تک تصویر حرام گردانی جاتی تھی۔
آخر میں چند باتیں توضیح المسائل نامی کتاب کے بارہ میں جو مفت ہونے کی وجہ سے ہر شیعہ گھر میں موجود ہے۔ اس میں ہزاروں مسائل پر حلال، حرام کے ایسے احکامات ہیں جن کا وجود اب نہیں رہا جیسے شکار، فی زمانہ سوائے مچھلی کے شکار کے دیگر شکار تقریباً مفقود ہوچکے ہیں لیکن اس کتاب میں اس سے متعلق سینکڑوں حلال و حرام اب بھی موجود ہیں۔ اسی کتاب میں چاہے کسی مجتہد کی ہو، زمین، سمندر، جھیلوں اور دریاوں سے نکلنے والی تمام معدنیات، جواہرات، تیل اور گیس کے بارے میں واضح طور پر یہ حکم موجود ہے کہ ان کی آمدنی کا پانچواں حصہ سادات کو دینا واجب ہے، چاہے حکومتیں نکالے یا کمپنیاں یا انفردای لوگ۔ اب خیر سے دو ملکوں ایران و عراق میں مجتہیدین کی حکومتیں سالوں سےقائم ہیں لیکن ٹکہ بھی سادات کو نہیں دیا جارہا۔ اس کا واضح مطلب ہے یا یہ واجب حکم غلط ہے یا وہ دونوں عظام، گناہ کبیرہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ جب کہ عام شیعہ خواتین و حضرات کی جیبوں سے ہر سال وہ خمس نکال رہے ہیں۔ سب سے مضحکہ خیز نکتہ یہ ہے کہ یہ کتاب ایک عام ایرانی مولوی شیخ علی اصغر کرباسچیان کی تدوین کردہ ہے اور ابتدا میں اسی بنیاد پر تمام آیت اللہ العظمی حضرات نے اس کتاب کی شدید مخالفت کی۔ یاد رہے کہ اس کی پہلی اشاعت 1335 ہجری شمسی (1956ء) میں ہوئی تھی لیکن آگے چل کر کچھ آگے پیچھے کرکے اور باقی کاپی پیسٹ کرکے سب آیات عظام ان پر جلی الفاظ میں اپنے اپنے نام سے اور خرچہ اسلامی بیت المال سے اس کی چھپائی بار بار کراتے آ رہے ہیں!؟؟ بلاشک اس کتاب میں ہزاروں ایسے مسائل ہیں جن کا یا تو ٹائم بارڈ ہیں یا وہ سرے سےعقل و منطق کے خلاف ہیں۔

نوٹ
اس تحریر کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ہمارے کم خواندہ مولوی صاحبان، بیچارے عوام کو ورغلانے اور گمراہ کرنے کے لئے ایسی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہیں جن کی کوئی اہمیت نہیں۔ شیعہ کے سب سے معتبرترین محدثین شیخ یعقوب کلینی اور شیخ صدوق چوتھی صدی ہجری اور شیخ طوسی جن کی دو کتابیں، کتب اربع میں شامل ہیں پانچویں صدی ہجری کی ہیں۔

اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *