ہزارہ کلچر ڈے 2024 ۔۔۔ اسحاق محمدی

کلچر، فرہنگ یا ثقافت کو ماہرین، قوموں کی روح قرار دیتے ہیں جس کے بغیر کوئی بھی قوم اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی اور ایک بے جان موجود میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کی اسی خاصیت کے باعث استعماری قوتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ زور زبردستی یا پھر حیلہ و فریب کے ذریعے ( بالخصوص مذہب کی آڑ لے کر) قوموں سے ان کی ثقافت یا روح چھین کر انہیں اپنا مطیع و فرمانبردار بنائے جس کی ایک لمبی فہرست اور تاریخ ہے، جس پر قلم آرائی کی یہاں گنجائش نہیں۔
ایک قوم ہونے کے ناطے ہزارہ قوم بھی ایک قابل فخر ثقافت کی حامل ہے جس کی ثقافت کے دونوں اجزائے ترکیبی یعنی مادی (ٹینجیبل) اور معنوی (اِن ٹینجیبل) بہت زرخیز ہیں۔
پاکستانی ہزارہ میں ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے میرے قدر تفصیلی آرٹیکلز اظہار ڈاٹ نیٹ پر موجود ہیں، لیکن آج میرا روئے سخن “ہزارہ کلچر ڈے 2024ء” (ٹینجیبل) ہے جو 19 مئی کو امارت اسلامی افغانستان اور ولایت فقیہ ایران کے قلمرو کے علاوہ دنیا بھر میں جہاں جہاں ہزارہ آباد ہیں، اس قدر جوش و خروش سے منایا گیا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ چنانچہ پاکستان، انڈیا سمیت پورے یورپ، امریکہ، کنیڈا، آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کے متعدد شہروں میں عورتوں، مردوں، بچوں اور بزرگوں نے بڑی تعداد میں کہیں پارکوں تو کہیں ہالز میں جمع ہوکر خوشیاں بھی منائیں اور کہیں کہیں اپنے علاقہ میئر اور ایم پیز (ممبر پارلیمنٹ) اورمقامی لوگوں کو شریک کرکے ایک طرح سے اپنی سیاسی و اجتماعی اہمیت سے آگاہ بھی کیا۔ جس کی مغرب کے جمہوری نظام میں بڑی اہمیت ہے۔

19 مئی 2019ء کواسلام آباد پاکستان سے شروع کیے جانے والی اس قومی تقریب کو عالمگیر بنانے میں ایک تو اس دن کی بانی فاطمہ عاطف آغئی کی انتھک شبانہ روز کوششوں کو کلیدی مقام حاصل ہے جنہوں نے اس کی پرچار کو اپنا مشن بنالیا ہے، وہ جہاں بھی جاتی ہے اس دن کے فروغ کے لئے کام کرتی رہتی ہے۔ دوسرا ایک موثر، ہزارہ پارٹی ہونے کے ناطے ہزارہ ڈیموکرٹک پارٹی کی حمایت کو، جس کے بارے میں اورسیز ہزارہ کے درمیان کافی اچھا تاثر پایا جاتا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ پارٹی قیادت کو ہزارہ کلچر کے فروغ کے بجائے اس کے سیاسی مقاصد کے حصول میں زیادہ دلچسپی ہے۔
دنیا کے اکثر خطوں میں ہزارہ کلچرڈے کے منانے کے حوالے سے نہ تو کوئی مشکل درپیش ہے اور نہ ہی کوئی ابہام ہے البتہ پاکستان میں اگرچہ قانونی لحاظ سے کوئی مشکل نہیں لیکن ولایت فقیہ کے حامیوں کی طرف سے ہزارہ کلچر کے خلاف ابہام سازی اور مذموم پروپیگنڈے پہلے بھی کیے جاتے رہے ہیں اور اب اس میں ہزارہ کلچر ڈے کی مناسبت سے مزید شدت آئی ہے۔ دیکھا جائے تو ماضی بعید و قریب میں تمام استعماری قوتوں کا یہ حربہ رہا ہے کہ بزور طاقت یا بزور تزویر (حیلہ) بطور خاص مذہب کی آڑ لےکر قوموں کی ثقافت کو کمزور کرکے انہیں اپنا مطیع بنائے اور انہیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کرے ۔
استعمار یونان و روم اور استعمار عرب سے لے کر استعمار یورپ تک سبھی نے اس حربے کا بے دریغ استعمال کیا ہے اور کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے ایران کی ولایت فقیہ حکومت نے بھی شروع دن سے ہی اس استعماری حربے کو استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی، چونکہ اس کو مذہب کی سہولت بھی حاصل ہے، اس لئے اس کا کام مزید آسان ہے۔ چنانچہ اسے اپنے ہاں کے دینی مدارس کے فارغ التحصیل مولوی حضرات کے ذریعے، اپنی پسند کے سیاسی کلچر کو پورے خطہ میں آسانی سے پھیلانے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے، جس سے وہ ہمیشہ بھرپور فایدہ اٹھانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اب چونکہ مقامی ثقافتیں اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں، اسی لئے ایران نواز مولوی، مذہب کی آڑ لے کرپوری شدت سے ان پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں، جن میں ہزارہ کلچر بطورخاص شامل ہے ۔ مضحکہ خیز نکتہ ہے کہ اس راہ میں وہ اکثر تضادات کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو پاکستان کے مختلف کونوں میں اس کی مثالیں ہر ایک کو روزمرہ بنیادوں پر دیکھنے اور سننے کوملتی ہیں لیکن یہاں میں ایک مثال پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ ایرانی ڈکٹیٹر سید علی خامنہ ای کی مدح میں “سلام فرماندہ” نامی گیت میں درجن بھر جدیدترین ساز و آلات موسیقی اور درجنوں بچیوں کو گانا گوا کر اور ٹیبلو کروا کر اور ان کی ویڈیو دنیا بھر میں دکھانے والے انہی ایران نواز مولویوں کے نزدیک مطلقاً حلال ہے جبکہ ایک سادہ ہزارہ گی ساز، دمبورہ (بقول شہید حسین علی یوسفی پرہیزانہ ساز) مطلقاً حرام ہے۔ اسی طرح کوئٹہ کی حد تک اس دمبورہ پر اپنی اور اپنے والدین کی مرضی سے ٹیبلو پیش کرنے والی بچیاں بھی جہنمی ہیں (اوورسیز ہزارہ کی بات الگ ہے)!؟؟؟
بہرحال اب ہزارہ کلچرڈے نے تمام سیاسی و جغرافیائی حدیں عبور کرلی ہے۔ پاکستان خاص طورپر کوئٹہ کی حد تک یہ ایران نواز مولوی شاید کچھ بال کی کھال اتار سکیں لیکن عالمی طور پر ان کے پاس اب حسرت و یاس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

1. https://izhaar.net/archives/4074
https://izhaar.net/archives/4170

3. https://izhaar.net/archives/4372

اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *