باجی رخسانہ احمدعلی ۔۔۔ اسحاق محمدی

باجی رخسانہ احمدعلی پاکستانی ہزارہ قوم کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے بلوچستان جیسے پدر شاہی سماج میں میدان سیاست کے خار زار میں اس وقت قدم رکھنے کی جرات کی جب ملک پر جنرل ضیاء کی آمرانہ اور جابرانہ حکومت قائم تھی اور جو اسلام اور شریعت کے نام پرآئے روز خواتین پر قدغنیں لگانے کے اقدامات کررہا تھا۔ باجی نے مزید روایت شکنی یہ کی کہ اس نے سیاسی جدوجہد کے لیے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کے زیرعتاب پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخاب کیا۔ بقول خود ان کے وہ اس وقت سکول میں زیر تعلیم تھی اور ہزارہ قوم کے اندر ایسی کوئی مثال بھی نہیں تھی، سو ہر طرف سے نہ صرف انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، طعنے ملے، بلکہ گالیاں بھی سننے کو ملیں (بطور خاص ہزارہ سماج کے اندر سے رجعت پسند طبقہ اس کام میں پیش پیش تھا) اور جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔ لیکن چونکہ وہ ایک روشن خیال اور باہمت خاتون تھی اس لیے ان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی اور وہ سرخروئی کے ساتھ آخری سانس تک اس پر قائم رہیں۔
باجی اپنی اس استقامت کا کریڈیت سب پہلے اپنے والد مرحوم کی تربیت اور بعد از آں اپنے شادروان شریک حیات، انجنئیر احمدعلی المعروف احمد نوربن کے تعاون اور پشتبانی کو دیتی تھیں۔

وہ سالوں پی پی پی شعبہ خواتین کی صوبائی صدر اور قومی کمیشن برائے خواتین میں بلوچستان کی نمایندہ کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں لیکن صد افسوس کے پارٹی پر قابض متعصب سرداروں اور نوابوں نے تمام کرائٹیریا پر پورا اترنے کے باوجود، شاید ہزارہ ہونے کے جرم میں انھیں 2008ء میں ایوان بالا یعنی سینیٹ کا رکن بننے نہیں بننے دیا، جس کا انہیں آخر تک رنج رہا۔
انہوں نے پاکستان میں ہزارہ نسل کشی کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائی۔ سیاست کے ساتھ ساتھ وہ اپنے شادروان شوہر انجنیر احمد علی نجفی المعروف بہ احمد نوربن کے ہمراہ فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہیں۔۔
راقم کو مختلف فورمز، سیمینارز اور قومی تقاریب میں ان سے درجنوں بار ملنے اور گفتگو کرنے کے مواقع ملے۔ اپنی تقاریر میں وہ اکثر ہزارہ قوم کو دو باتوں کی تاکید ضرور کرتی تھیں۔
‎پہلی بات یہ کہ اپنی بیٹیوں کو وہی تعلیم دو جو بیٹوں کو دے رہےہو اور
دوسری یہ کہ بیٹیوں کی تربیت ایسی کرو کہ ان میں خود اعتمادی آئے۔
‎وہ کئی قومی (ہزارہ) اداروں کے سماجی کاموں میں فعال کردار ادا کرتی رہیں، ان میں سے ایک نسل نو تعلیمی مرکز بھی شامل تھا۔ وہاں انھوں نے1987ء میں “ہنر مرکز” کے نام سے، ہزارہ نوجوان نسل بشمول خواتین کے لئے جدید خطوط پر استوار ٹیکنیکل ٹرینینگ سنٹرز کی بنیار رکھی۔
‎ہنرمرکز کے ڈائریکٹر علی مدد شریفی کے مطابق ” اس پروجیکٹ کے تحت دو جداگانہ سنٹرز قایم کئے گئے تھے جہاں ایک سینٹر میں لڑکوں کو الیکٹرونکس اور ویلڈنگ کے ہنر سکھائے جاتے تھے جبکہ دوسرے سنٹر میں خواتین کو قالین بافی کی تربیت دی جاتی تھی۔ ان کے مطابق اس ہنر مرکز میں رخسانہ باجی ڈپٹی ڈایریکٹر کے طور رضاکارانہ خدمات انجام دیتی تھیں اور دونوں سنٹرز کے کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتی تھیں۔ بدقسمتی سے یہ ہنرسنٹرز جو کافی کامیابی سے چل رہے تھے، تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے اور علی مدد شریفی کے بیرون ملک جانے پر بابو اسداللہ کے دور میں زوال کے شکار ہوکر بند ہوگئے، جس کا افسوس رخسانہ باجی، ان کے شوہر نامدار شادروان انجیئر احمدعلی سمیت تمام بانی اراکین کو ہوا۔ یقیناً یہ سنٹرز اگر اب تک سرگرم عمل رہتے تو قوم کے سینکڑوں نوجوان فارغ التحصیل ہوکر صاحب روزگار ہوتے اور موجودہ قومی، لسانی اور مذہبی تعصبات کا شکار نہ بنتے نہ ہی روزگار سے محروم ہوکر اپنے خاندانوں اور معاشرہ پر بوجھ بنتے۔ یاد رہے کہ انجنیئر نجفی صاحب بھی ہنرمرکز میں ٹیکنیکل ایڈوائزر کی حیثیت سے رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے تھے۔
‎ان کی ان بے لوث سماجی خدمات کے اعتراف کے طور پرمختلف قومی اداروں کی طرف سے انہیں ایوارڈز بھی دئیے گئے۔
‎رخسانہ باجی، باہر کے کاموں میں اپنے شوہر کے شانہ بہ شانہ حصہ لینے کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری میں بھی ایک گھریلو خاتون سے کسی طور کم نہیں تھیں اور کھانا پکانے میں بہترین سلیقہ رکھتی تھیں۔ جب شاد روان احمد نوربن حیات تھے تو راقم وقتاً فوقتاً ان کے گھر کا چکر لگاتا رہتا تھا۔ ایسے میں جب باجی گھر پر ہوتیں تو ٹائم اور موسم کے لحاظ سے قسم قسم کے مزیدار پکوان پکاتی تھیں۔
سال 2022ء کو میں نے میسینجر کے ذریعے باجی سے گذارش کی تھی کہ میں، ان کی زندگی، سیاسی جدوجہد اور سماجی خدمات پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں کچھ معلومات چاہئے اور ایک سوالنامہ (سال پیدائش، خاندانی اور تعلیمی بیک گراونڈ وغیرہ) بھی بھیجاتھا۔ باجی نے یہ معلومات دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن شاید بیماری کی وجہ سے وہ یہ معلومات نہ بھیج سکیں۔ بعد میں ان کے باز ماندگان سے بھی گذارش کی تھی کہ وہ یہ معلومات مہیا کریں تاکہ قوم کی اس جری اور قابل فخر بیٹی کی شخصیت اور کارنامے موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں تک پہنچائے جاسکے۔ یہ معلومات راقم کو اب تک نہیں ملی ہیں۔
10 جنوری2023ء کو رخسانہ احمدعلی جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئیں لیکن ان کی سیاسی و سماجی خدمات تا دیر یاد رہیں گی۔

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *