عالم مصباح کے ساتھ ایک یادگار سفر ۔۔۔ اسحاق محمدی

شادروان عالم مصباح عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے لیکن انٹر کے بعد تعلیم جاری رکھنے کے بجائے میں کام کرنے لگا تھا، اس لئے 1990ء میں ہم دونوں بلوچستان یونیورسیٹی میں بیچ فیلوز بن گئے۔ چونکہ انہوں نے فلسفہ جیسی مشکل سبجیکٹ میں داخلہ لیا تھا اور ان کی پہلی ترجیح تعلیم ہی تھی لہذا ان کا زیادہ وقت فلاسفی ڈیپارٹمینٹ میں ہی گذرتا تھا۔ خاص طور پر امتحانات سے تین مہینے پہلے وہ اپنا شیڈول اسطرح بناتے کہ دو بجے کلاسز ختم ہونے کے بعد جب باقی سٹوڈنٹس اپنے گھر یا ہاسٹل چلے جاتے تب مصباح، کینٹین سے چھولے یا چاول چھولے کھاکر سیدھا مرکزی لائبریری جاکر امتحانات کی تیاری میں لگ جاتے اور پھر 5 بجے کی بس میں لاءکالج سٹوڈنٹس کے ساتھ شہر آکر جی پی او کے پاس اتر جاتے۔ وہاں سے وہ گھر چلے جاتے۔ اس دوران گھر میں بھی اکثر اوقات وہ صبح کی آذان تک پڑھتے رہتے۔  یعنی مصباح کو عالم مصباح بننے کے لئے کافی محنت کرنا پڑی۔ اسی انتھک محنت کی وجہ سے انہوں نے ایم اے میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی اور بعد میں اسی ڈیپارٹمینٹ میں لیکچررتعینات ہوئے۔
جولائی 1992ء میں فائنل امتحانات کے بعد (تاریخ میں میں نے اپنی ایم اے کی سند سے لی ہے) ایک دن مصباح نے مجھ سے کہا میں بہت تھکا تھکا محسوس کررہا ہوں چلو لاہور لیاقت شریفی کی طرف چلتے ہیں۔ میں نے حامی بھری اور ہم دونوں لیاقت شریفی کو اطلاع دیئے بغیر بذریعہ ریل لاہور روانہ ہوگئے۔ لاہور اسٹیشن بذریعہ ٹانگہ، این سی اے ہاسٹل پہنچے اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے لیاقت تک پہنچ گئے۔ اس وقت ان کا کمرہ گراونڈ فلور پر تھا اور غالباً وہ تنہا سٹوڈنٹ تھے جو اکیلے ایک عدد کمرہ میں براجمان تھے جبکہ باقی کمروں میں کم سے کم دو سٹوڈنٹس مقیم تھے۔ خیر ہمیں دیکھ کر انہیں خوشگوار حیرت ہوئی۔ انہوں نے خوش دلی سے ہمیں ویلکم کیا۔ ہم نے پہلے ہی دن انہیں بتایا کہ ہمارے آنے کا مقصد خوش گذرانی اورآرام کرنا ہے لہذا وہ اپنی روزمرہ معمولات اپنے حساب سے جاری رکھیں۔ ہمارا روٹین کچھ اس طرح تھا کہ صبح آٹھ بجے کے قریب لیاقت مجھے یا مصباح کو جگا کر کمرہ اندر سے بند کرنے کا کہتے اور خود این سی اے نکل پڑتے۔ ہم 11 بجے اٹھ کر شاور لیتے اور مال روڑ پر واقع ایک سینما کے سامنے ریڑھی والے سے برگر (بند، شامی کباب) کے ساتھ چائے نوش جان کرتے جو اس وقت غالباً 3 روپے فی کس پڑتا۔ پھر وہاں سے کبھی فیروز سنز میں نئی اور کبھی اردو بازار میں پرانی کتابوں کی تلاش میں لگ جاتے۔ 2 بجے دوپہر کے آس پاس پھر اسی مال روڑ پر کسی سوزوکی والے سے بریانی یا دال روٹی کھاکر (دوپہر کا کھانا تقریباً 5 روپے فی کس پڑتا) واپس ہاسٹل آجاتے۔ اس وقت تک لیاقت بھی آجاتا۔ کچھ دیر بنڈار کرنے کے بعد سوجاتے۔ 5 بجے کے آس پاس لیاقت ایک بار پھر کالج چلے جاتے اور میں اور مصباح کبھی کتاب پڑھنے لگتے تو کبھی چہل قدمی کے لئے نکل پڑتے۔ رات 8 بجے کے اس پاس لیاقت واپس آجاتے اور ہم رات 2 بجے تک بلا کسی خوف و خطر کے لاہور کی گلیوں میں مٹرگشت کرتے اور دنیا جہاں کے موضوعات پر بات چیت کرتے۔ ہم دس دن لیاقت شریفی کے ساتھ رہے۔ اس دوران ہماری ساری تھکاوٹیں اتر گئیں اور ہم ہلکا پھلکا ہوکر واپس کوئٹہ لوٹ گئے۔

یہ سفر ہر لحاظ سے یادگار رہا۔ اس سفر کے دوران ایک دلچسپ واقعہ بھی رونما ہوا۔ ہم نے سیٹر بوگی میں دو سیٹیں اور ایک برتھ لی تھی۔ ہمارے ساتھ ایک بزرگ اپنے دو لڑکوں اور چند رشتہ داروں کے ساتھ تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لئے رائیونڈ جارہے تھے۔ رات گئے میں نے مصباح سے کہا کہ اوپر جاکر برتھ پر سوجائے جبکہ میں نیچے سیٹ پر نیم دراز ہوکر سو گیا۔ رات گئے اونچی آوازوں سے میں، جاگ گیا، تھوڑی سی توجہ دی تو پتہ چلا یہ مصباح کی آواز ہے۔ میں نے اٹھ کر اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے ہزارہ گی میں کہا

“یارہ مہ دہ مست خاو بودوم کہ از یگ بد رقم بوئی بیدار شدوم، سیل نوم کہ امی روبرو برتھ والا ہر دو پائ خورہ پیش بینی ازمہ دراز کدہ ایشتہ، گفتوم پائ خو پس کو کہ بوئی میدیہ، او پائ خو پس کد اما گفت ای پچوق بینی چیطور بوئی رہ کش مونہ؟  مہ گفتوم “اگہ ریش نباشہ ہر رقم بینی بوئی رہ کش مونہ”۔

اس کے بعد رائیونڈ تک ہماری کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *