عدم برداشت ایک سماجی عارضہ ۔۔۔ جاوید نادری

عدم برداشت دوسروں کے اجتماعی و سیاسی، رویوں، نظریے اور آراء کو حقیر جاننے،احترام دینے کی وصف سے عاری ہونے کی ذہنی و شخصی کمزوری ہے جو انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں پائی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اپنے عقائد و طرز بود وباش سے اس قدر جذباتی طور پر جڑنا کہ دوسروں کے عقائد، طرز بود وباش حتیٰ کہ آراء کو غلط، برا اور کمتر جاننا اور تعصب برتنا عدم برداشت کہلاتا ہے۔ عدم برداشت کو تعصب کے مترادف سمجھا جاتا ہے اس کی بنیادی وجوہات میں خوف(ڈر ) یا انہونی کو جھیلنے کی سکت سے عاری ہونا یا پھر مستقبل کی تیاری سے غفلت اور لاتعلقی ہے۔ عدم برداشت والے اشخاص کو دوسرے لوگوں کے مختلف (الگ) خیالات، عقائد اور طرز عمل کو قبول کرنے میں دشواری ہوتی ہے عدم برداشت دراصل دیگر طریقوں، عقائد کے احترام کی کمی اور سمجھنے کی محرومی ہے جنہیں ہم مختلف (الگ) سمجھتے ہیں ان کو مسترد کرتے ہیں، مثلاً دوسرے سماجی یا نسلی گروہ یا وہ لوگ جو سیاسی، فکری رجحانات میں ہم سے مختلف ہیں ۔
ذہنی تنوع میں کمی اور عدم تحفظ میں مبتلا افراد عموماً ایک خاص گروہ یا فکر سے منسلک ہونے کے بعد دوسروں کے عقائد، خیالات اور طرز عمل کو قبول کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ وہ تخلیق اور اختراع کے عمل سے خود کو دور رکھتے ہیں اورتجربہ کرنے میں خوف محسوس کرتے ہیں۔ انہیں تبدیلی اور نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں دقت پیش آتی ہے۔ لہذا وہ خود کو ایک خوفناک اور بدترین ماحول میں کھڑا پاتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے اور سیکھنے کے عمل سے عاری ذہنی افلاس میں مبتلا شخص ہمیشہ دفاعی پوزیشن اختیار کرتا ہے، شخصی کمال سے ناواقف اور لچک سے ناشنائی اسے دوسروں کے رویے اور عقائد پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ معاشرتی طور پر ایسی پسماندہ سوچ، سماج کے اندر ایک تناؤ کو جنم دیتی ہے، تناؤ کے اس مضبوط احساس سے جڑے ہونے کی وجہ سے معاشرے کی سماجی اور اقتصادی ترقی بتدرج کم ہوتی جاتی ہے یعنی معاشرہ ایک جزوی دباؤ کے نیچے آ جاتا ہے۔ نتیجتاً فرد روایتی سماجی اہداف تک پہنچنے کی تمام کوششوں کو ترک کر دیتا ہے اور ایسے میں اس پر خالی پن اور بے مقصدیت کا احساس غالب آتا ہے۔ وہ معاشرے کی توقعات اور اقدار سے خود کو منقطع کرتے ہیں اور تمام ذمہ داریوں سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ اسی انحراف کی وجہ سے گنجلک ذہنی الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسی الجھاؤ سے نمٹنے کی سعی میں گمراہی یا بیراہ روی کی نظر ہو جاتے ہیں۔
دوسری جانب برداشت، مختلف(الگ) مذہبی عقائد، سیاسی خیالات اور سماجی رویوں کو قبول کرنے کی آمادگی کا نام ہے یہ وسیع النظری اور کھلی سوچ اور رویے کی پہچان ہے آپ ان لوگوں کو بھی قبول کرتے ہیں جو آپ کی سوچ کے برعکس ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ قبول کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ آپ کی طرح نہیں سوچتے، دوسروں کے سیاسی خیالات، عقائد، نسلی پس منظر یا طرز زندگی کے بارے میں منفی تبصروں سے گریز کرنا اور دوسروں کے رویوں اور رائے کا احترام کرنا اور ان کی باتوں سے (قائل ہوئے بغیر) استفادہ کرنا برداشت ہے۔
برداشت رواداری کو جنم دیتی ہے اور رواداری تحمل و بردباری کو۔ دوسرے کی کامیابیوں میں خامی ڈھونڈنے اور غلطیوں پر خوش ہونے کے بجائے اپنی شخصیت کی نمو اور ترقی پر توجہ مرکوز رکھنا درحقیقت تحمل و بردباری ہے۔ متحمل و بردبار لوگ دوسروں کی زندگی اور ذاتیات میں بلا وجہ جھانکنے اور دخل دینے، انہیں رد کرنے کے بجائے اپنی خامیوں کو سمجھتے ہوئے ناکامیوں اور کامیابیوں کو یکساں طور پر قبول کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ وہ ہر وقت بہتری کے لیے قدم اٹھاتے ہیں۔ تحمل و بردباری دوسروں سے زیادہ باصلاحیت عقلمند یا ہوشیار ہونے سے متعلق نہیں ہے نہ ہی ایک کامیابی کے بعد کی کامیابی (حاصل) کے بارے میں ہے۔ یہ اپنے اندر غوطہ زن ہونے اور بہتری لانے کی ایک مضبوط حکمت عملی ہے یہ اپنی توجہ (فوکس) میں بہتری لانے کے لیے وقت کا صحیح استعمال ہے۔ یہ مستقبل کی پیش بینی اور زیادہ پیچیدہ کاموں سے نمٹنے کی صلاحیت پر مبنی ہے تحمل لوگوں کو ذہنی و جسمانی تھکاوٹ سے بچنے میں مدد فراہم کرتا ہے یہ ارادے کو جوش و جذبہ دیتا ہے۔ یہ لوگوں کو ثابت قدم اور پرعزم رہنے پر آمادہ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ تحمل پیدائشی خاصیت نہیں ہے اس کے لیے وقت اور شعوری محنت درکار ہوتی ہے۔
تحمل انسانی صلاحیت اور کوشش کا آمیزہ ہے یہ اپنے اندر جھانکنے اور خود کو سنوارنے اور نکھارنے کا ایک قابل اعتبار ذریعہ ہے۔ یہ کسی بھی کام (ٹاسک) کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے۔ دوسروں کے کام میں نقائص ڈھونڈنے کے بجائے اپنے ہنر میں نکھار لانے کی کوشش کریں۔ کسی بھی کام (ٹاسک) کی انجام دہی کے بعد اپنی حکمت عملی پر پورا پورا وقت صرف کریں اور خود سے پوچھیں کہ کیا میں نے اس کام کو انجام دینے میں وقت کا صحیح استعمال کیا، کیا اس کام کی انجام دہی میں اتنا وقت کافی تھا؟ کیا میری توجہ (فوکس) مزید بہتر ہو سکتی تھی؟ اگلی بار میں کیا بہتر کر سکتا ہوں؟ یہ آپ کو مسلسل بہتری پر توجہ مرکوز کرنے اور مستقبل کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کی قوت برداشت عطا کرتا ہے۔
تحمل مزاج اور باہمت لوگ اپنی زندگی میں کامیابی لانے کے لیے اہداف کا تعین کرتے ہیں اور ان اہداف کے تعاقب میں شبانہ روز تک ودو کرتے ہیں زندگی میں اعلیٰ کامیابی کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے اوپر سختی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ شوق و جذبہ اور استقامت کے امتزاج سے کامیابی کے سفر کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *