اس سال (2023ء) مارچ کو میرا یوٹا اسٹیٹ کے دارلحکومت سالٹ لیک سِٹی جانے کا پروگرام بنا، ایک بابہ شہید مزاری کی برسی کی تقریب میں پریزنٹیشن دینے کیلئے اور دوسرا کیپٹن صادق علی (ہزارہ فٹبال کلب) کے بیٹے کی منگنی کے پروگرام میں شرکت کرنا۔ اتفاق سے ہم دونوں فیملیز کی رہائش محمدعلی المعروف بابے مہدی کے ہاں تھی۔ یوں کافی عرصے کے بعد بنڈار کے کئی مواقع ملے۔ انہی بنڈاروں کے دوران کیپٹن صادق نے مرحوم ماسٹر عثمان کے ایک احسان کے بارے میں بتایا جو یزدان خان سکول کے گروانڈ کے متعلق تھا، جس کے بارے میں نہیں جانتا تھا، حالانکہ میں نے یزدان خان سکول کی تعمیر کے بارے میں کئی ہزارہ بزرگوں بشمول شادروان پروفیسر ناظرحسین، شادروان خدا نذر قمبری، ماسٹر حسن و کئی دیگر سے مرحوم ماسٹر کے کلیدی کردار کے بارے میں سن رکھا تھا لیکن یزدان خان ہائی سکول گراونڈ میں مرحوم ماسٹر عثمان کے کردار کے حوالے سے پہلی بار سن رہا تھا، جسے قارئین کی نذر کررہا ہوں۔ پہلے مختصر قصہ جو خود یزدان خان ہائی سکول (موجودہ ماڈل ہائی سکول) کی تعمیر کے بارے میں ہے اورجسے میں نے ہزارہ بزرگوں سے سنا ہے:
جنرل محمد موسیٰ خان پاکستان آرمی چیف (1958ء) بننے کے بعد جب پہلی بار کوئٹہ آئے تو یہاں کے قبائلی رسوم و رواج کے مطابق بلوچستان بھر کے قبائلی عمائدین، سیاسی و سماجی رہنماؤں نے نہ صرف ان کا پرتپاک استقبال کیا بلکہ بعد میں روایتی تحفوں تحائف کے ساتھ ان کی رہائشگاہ پر آکر انہیں سی این سی بننے کی مبارکباد بھی دی، ان میں مرحوم ماسٹر عثمان بھی شامل تھے، جو اپنے وقت کے معروف کھلاڑی تھے اور جنرل موسیٰ خان کو قریب سے جانتے تھے۔ یاد رہے کہ ماسٹر مرحوم بیک وقت فٹبال و ہاکی کے بہترین کھلاڑی تھے اور زیادہ تر ہزارہ کلب کی طرف سے کھیلتے تھے۔ جنرل موسیٰ خان بھی ہاکی کے اچھے کھلاڑی رہے تھے اور اسی مناسبت سے جنرل صاحب ان کو جانتے تھے اوران کا احترام کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں قبائلی عمائدین و دیگر نے روایتی تحفے تحائف دیکر جنرل موسی خان کو آرمی چیف بننے کی مبارکباد دی وہی، مرحوم ماسٹر عثمان نے جنرل صاحب کو ان کے والد سردار یزدان بخش خان المعروف یزدان خان کے نام پر ایک سکول بنانے کی صلاح دی کیونکہ اس وقت علاقے میں کوئی سرکاری سکول نہیں تھا، جسے انہوں نے فوراً قبول کرلیا اور سکول کی تعمیر کا حکم دیدیا۔ کیپٹن صادق جو اس وقت چھٹی جماعت کے طالبعلم تھے، اس دور کے بزرگوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یزدان خان ہائی سکول کی تعمیر کا حکم آنے کے بعد دیگر تمام دفتری کاروائی یعنی زمین کا حصول (زمین پٹیل کی ملکیت تھی)، فنڈ کی ایلوکیشن، تعمیراتی کام کی شروعات وغیرہ سب مرحوم ماسٹر عثمان کی شبانہ روز کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ان کے مطابق جہاں کام میں خلل آتا مرحوم ماسٹر عثمان فوراً جنرل صاحب کے بھائی مرحوم سردار عیسیٰ خان کے ہاں فائل سمیت پہنج جاتے۔
یزدان خان ہائی سکول کی تعمیر کی داستان اس حد تک میں نے کئی دیگر ہزارہ بزرگوں سے سن رکھی تھی اور شاید بہت سے دیگر قارئین نے بھی سن رکھی ہو۔ لیکن کیپٹن صادق نے جو نئی بات کی میری طرح وہ بات شاید بہت سے لوگوں بطور خاص ہماری نئی نسل کےلئےبھی نئی ہو۔ کیپٹن نے بتایا کہ 1965ء میں سکول کی مرکزی عمارت کی بنیادوں کی کھدائی کے دوران علاقہ کے باشندوں کو پتہ چلا کہ سکول کے ساتھ ملحقہ میدان کی زمین کافی چھوٹی اور کھیلوں کےلئے ناکافی ہے۔ اس پر علاقہ کے جوان چند بزرگوں کو لےکر ایک بار پھر مرحوم ماسٹر عثمان کے پاس یہ درخواست لے کر پہنچے کہ اس میں مزید زمین شامل کی جائے تاکہ بطور ایک پلے گراونڈ بھی استعمال ہوسکے۔ ماسٹر مرحوم نے کہا کہ مروجہ سرکاری پروسیجر سے یہ کام کافی لمبا ہوگا میں تعمیراتی ٹھکیدار محمد یوسف سے بات کرکے اس کا کوئی شارٹ کٹ راستہ نکال لوں گا۔ یاد رہے کہ ٹھیکیدار محمد یوسف مرحوم، غلزئی روڑ کے رہائشی ایک پشتون تھے، شاید ان کے رشتے دار اب بھی وہی ہوں۔ مرحوم ٹھکیدار اس شرط پر راضی ہوئے کہ علاقے کے لوگ ان کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اس وقت چونکہ لوگوں میں اتنی نفسانفسی نہیں تھی، فوراً سبھی راضی ہوگئے۔ ٹھیکیدار نے تعمیراتی سامان، مستری وغیرہ کا بندوبست کرکے علاقہ مکینوں کے تعاون (آشار) سے راتوں رات ایک بڑے قطعہ زمین پر چاردیواری کھڑی کردی جس کا گرانا پٹیل جیسے با اثر شخص کے ساتھ ساتھ کسی حکومتی ادارے کے بس کی بات نہیں تھی۔ لازمی بات ہے کہ مرحوم ٹھکیدار محمد یوسف کا کافی مالی نقصان بھی ہوا لیکن ان کی اور مرحوم ماسٹر عثمان کی کوششوں سے یزدان خان ہائی سکول اور یزدان خان گراونڈ کی صورت میں علاقے کے باشندوں بطور خاص ہزارہ قوم کو دو ایسے انمول تحفے ملے جہاں سے اب تک ہزاروں طالبعلم زیورتعلیم سے آراستہ، سینکڑوں بڑے بڑے عہدوں تک پہنچے اور پہنچ رہے ہیں، ساتھ ہی ہزاروں کھلاڑی بشمول نیشنل اور انٹرنیشنل پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ قیوم پاپا اسٹیڈیم بننے تک یزدان خان سکول گراونڈ علاقے کا واحد گراونڈ تھا جہاں پر سردیوں کے چند مہینوں کے علاوہ ہر وقت چھوٹے بڑے ٹورنامنٹس ہوتے رہتے تھے۔ یوں ہزارہ قوم پر مرحوم ماسٹر عثمان کے بیک وقت دو بڑے احسانات ہیں، ایک یزدان خان ہائی سکول اور دوسرا یزدان خان ہائی سکول کا میدان جس میں مرحوم ٹھکیدار محمد یوسف بھی برابر کے شریک ہیں۔
مرحوم ماسٹر عثمان کے بارے میں مزید لکھنے کا اراد ہے۔ اس ضمن میں کنیڈا میں مقیم سابقہ پولیس آفیسر جناب ادریس صاحب سے تفصیلی بات ہوئی ہے جو رشتے میں مرحوم ماسٹر کے داماد ہیں۔ اس ضمن میں، میں نے ایک سوالنامہ بھی ان کے توسط سے مرحوم ماسٹر عثمان کے فرزند ارجمند کے لئے بھیجا ہے، جواب موصول ہونے کی صورت میں، ایک فرض کی طرح لکھنے کی کوشش کروں گا۔ البتہ قارئین میں سے اگر کسی کے پاس مرحوم کی بابت معلومات ہوں یا کوئی تصویر ہو مجھے اِن باکس کرسکتے ہیں۔ ادریس صاحب کے مطابق ان کی آخری آرامگاہ کانسی قبرستان میں ان کے خاندان کے لئے مخصوص احاطے میں ہے، اگر کوئی اس کی تصویر بھیج سکے تو بڑی مہربانی ہوگی۔
ںوٹ:
اس مختصر تحریر کے لئے کیپٹن صادق علی، سارجنٹ محمد ادریس، عبدل علی عبدل اور محمد باقرعلی کے مخلصانہ تعاون کا بے حد شکریہ
- سانحہ 6 جولائی 1985 ۔۔۔ اسحاق محمدی - 08/11/2024
- محمدعالم مصباح (تیسری اور آخری قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 05/09/2024
- عالم مصباح (1967- 1994). دوسری قسط۔۔۔ تحریر۔ اسحاق محمدی - 27/08/2024