پاکستانی دفاتر، کل اور آج ۔۔۔ اسحاق محمدی

   

  برصغیر کے لوگوں،  بطور خاص پاکستانیوں کی بد قسمتی کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود انگریز سرکار یہاں ایک بہتر انتظامی سسٹم دے کر گیا تھا۔  لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے اپنے کرتا دھرتاؤں نے اس میں اقربا پروری،  رشوت ستانی اور لسانی تعصبات کی بنیادوں پر اُس کارآمد نظام کو اس حد تک گراوٹ کا شکار کردیا ہے کہ آج بیچارے عوام اپنی جگہ؛  خواص تک کی بھی چیخیں نکل رہی ہیں۔  1980ء تک ہمارے سرکاری دفاتر کی کیا کارکردگی تھی،  اس کی ایک روداد قارئین کی خدمت میں پیش ہے:

میں اور حاجی اکرم(منیجر گیس کمپنی) 1980ء کے وسط میں یزدان خان گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک پاس کرنے بعد داخلہ لینے کے لئے جب سائنس کالج پہنچے،  تو اتفاق سے داخلہ کاونٹر پر محلے کا ایک دوست(بابو صفدرعلی)  بیٹھے تھے۔  بابو صاحب بڑی گرمجوشی سے ملے اور ہنستے ہوئے پوچھا:  ”داخلہ کے لئے آئے ہو۔“  ہم نے اثبات میں جواب دیا،  تو بیٹھنے کو کہا اور چائے کا آرڈر دیتے ہوئے داخلہ فارمز تھما دیا۔  فارم پڑھ کر تو ہمارے اوسان خطا ہوگئے،  کیونکہ اس میں دیگر بنیادی شرائط کے ساتھ لوکل یا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی کاپی کی لازمی شرط بھی شامل تھی،  جو ہمارے پاس نہیں تھی۔  بابو صفدر سے اس بابت پوچھا تو بولے پہلے چائے پی لو بعد میں بتا دوں گا۔  چائے پینے کے بعد ہم نے بابو صفدر سے اس ضمن میں رہنمائی مانگی،  تو اس نے تفصیل سے کچہری میں واقع ڈی سی آفس کا پتہ سمجھایا اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اپنے داخلہ فارم کے ساتھ صرف اپنے لوکل سرٹیفکیٹ جمع ہونے کی رسید کی فوٹو کاپی لگا دو،  میں داخلہ فارم جمع کروں گا۔  تھوڑی سی تسلی ہوئی۔  چائے پینے کے فوراً بعد ہم دونوں نے سائیکل پر کچہری کی راہ لی اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوکل آفس کے دفتر پہنچے۔  ڈیلنگ ہینڈ کلرک(جو غیر ہزارہ تھا)  کے پاس گئے اور اپنا مدعا بیان کیا کہ ہمیں کالج میں داخلے کے لئے لوکل سرٹیفکیٹ کی فوری ضرورت ہے،  ورنہ کالج کے داخلے سے محروم ہوں گے۔  اس نفیس انسان نے ہمیں فارمز دیئے،  پر کرنے کی رہنمائی کی اور متعلقہ دستاویزات اور فیس وغیرہ کے ساتھ دوبارہ آنے کا کہا،  ساتھ ہی تسلی دی کہ فارمز درست ہونے اور درکار دستاویزات کی تصدیق شدہ کاپیز منسلک ہونے کی صورت میں اسی وقت رسید ایشو کرے گا۔

      حاجی اکرم دفتری معاملات میں اسی وقت سے کافی محتاط اور باشعور تھا۔  واپس گھر پہنچتے ہی فارمز پر کیں،  متعلقہ دستاویزات کی فوٹوکاپیز نکلوائیں،  خوش قسمتی سے ہم دونوں کے پاس فوٹوز موجود تھے (چونکہ حاجی اکرم کو سکول کے دور سے ہی فوٹوگرافی اور تصویروں کا شوق تھا جو مجھ میں بھی سرایت کرگیا تھا،  ورنہ آن زمان فوٹو کچھوانے کے دو یا تین دن بعد وہ ہمارے ہاتھ لگتا۔)  یوں اگلے روز صبح 8 بجے کے آس پاس ہم فارمز اورمتعلقہ دستاویزات کے ساتھ محلہ سید آباد میں حاجی طالب حسین مرحوم کے گھر دستخط کرانے پہنچ گئے،  جو اس وقت لوکل/ ڈومیسائل کمیٹی میں ہزارہ قوم کی نمائندگی کرتے تھے۔  گھنٹی بجانے پر غالباً ان کے چھوٹے بھائی حاجی اسداللہ مرحوم باہر نکلے۔  سلام دعا کے بعد ہم نے جلدی جلدی اپنا وہی دکھڑا سنایا کہ  ”ہمیں کالج داخلے کے لئے لوکل سرٹیفکیٹ کی فوری ضرورت ہے،  مہربانی کرکے اسے صاحب سے دستخط کروادیں۔“  انہوں نے بغیر کچھ کہے پوچھے ہم سے فارمز لیے اورچند لمحے بعد دستخط کروا کے ہمیں واپس کردیے۔  وہاں سے ہم سیدھے یزدان خان ہائی سکول پہنچےاور  ہیڈ ماسٹر آغا اکبرشاہ مرحوم سے فارمز چیک کروا کردستاویزات کی تصدیق کروائیں۔  آغا اکبر شاہ بڑے نفیس،  شریف النفس اوراچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔  یزدان خان سکول کو نصابی اور غیر نصابی حوالے سے ترقی دینے میں ان کا بڑا کردار ہے۔  (موقع ملا تو ان کے بارے میں تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے۔)  اُس وقت پولیس وغیرہ سے کسی دستاویز یا صفائی کی ضرورت نہیں تھی۔  یوں ہم ہنسی خوشی سائیکلوں پر ڈی سی آفس،  متعلقہ کلرک کے پاس پہنچے۔  اسے ہماری چابک دستی پر حیرت ہوئی،  فارمز اور منسلک دستاویزات کے معائنے کے بعد اس بھلے انسان نے رسید کاٹ کر ہمارے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ ہر مہینے کی 10 تاریخ کو لوکل/ ڈومیسائل کمیٹی کی میٹنگ ہوتی ہے۔  آپ لوگ اگلے مہینہ تین،  چار دن قبل نوٹس بورڈ پر اپنا نام چیک کرلیں اور مقررہ وقت پر آکر انٹرویو دیں اور پاس ہونے کی صورت میں،  اگلے ہفتہ آکر اپنی سرٹیفکیٹ لے جائیں اور بعینہٖ وہی ہوا یعنی فارم لینے اور جمع کرنے،  انٹرویو دینے اور لوکل سرٹیفکیٹ لینے میں کل پانچ (صرف 5) دن سے بھی کم وقت صرف ہوئے،  نہ کسی کی سفارش کی یا رشوت کی ضرورت پڑی،  نہ دھوپ یا بارش میں گھنٹوں لائن میں کسی بڑے صاحب کے انتظار میں کسی چھوٹے صاحب (سنتری یا چپڑاسی) کے سامنے خوار ہونا پڑا اور نہ ہی بڑے صاحب کے نخوت،  رعونت یا تعصب آمیز سوالات کا سامنا ہوا۔  کیا آج اس طرح کے کسی معجزے کی توقع کی جاسکتی ہے؟؟؟   یادش بخیر کیا اچھا وقت تھا۔

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *