کافروں کے کرتوت ۔۔۔ اسحاق محمدی

میں اپنی فیملی کے ہمراہ گذشتہ دس سال سے نیویارک شہر کے ایک شمالی مضافاتی ٹاؤن میں رہائش پذیر ہوں۔ یہاں کوئی قوما فیملی نہیں رہتی۔ ہماری دوستی ایک ایجوکیٹیڈ لاہوری فیملی سے ہے، جن سے عیدین اور ویک اینڈ میں عموماً ملتے رہتے ہیں۔ شوہر پی ایچ ڈی ڈاکٹر جبکہ بیگم نے یہی امریکہ سے ماسٹر کر رکھی ہے۔ کوئی چار مہینے قبل ایک شام بیگم نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا بڑا بیٹا 5 سالہ حارث بیمار اور کمونیٹی ہسپیتال میں داخل ہے، اسکی مزاج پرسی کو چلتے ہیں۔ میں، فی الفور تیار ہوا۔ ہمیں اسکی بیماری کی نوعیت کا پتہ نہیں تھا لیکن ہسپیتال جا کر یہ تشویشناک خبر ملی کہ کسی مورثی بیماری کی وجہ سے بچے کے دل کے پٹھے اتنے کمزور ہیں کہ تیز حرکت کی صورت میں وہ دل کو سنبھال نہیں پارہا اور موجودہ ادویات سے علاج ممکن نہیں، لہذا ٹرانس پلانٹ (تبدیلی قلب) ہی واحد حل ہے۔ یہ خبر تو ڈاکٹر صاحب اور اس کی چھوٹی فیملی کے لئے قیامت سے کم نہیں تھی۔ ہم نے حسب روایت تسلیاں تو بہت دیں لیکن دلی طور پر بہت دکھی بھی ہوئے۔ اگلے دو، تین دن کے بعد پتہ چلا کہ کمونیٹی ہسپیتال نے ننھے حارث کو نیویارک شہر کے کسی بڑے ہسپیتال منتقل کردیا ہے جہاں تبدیلی قلب جیسے پیچیدہ آپریشن کےلئے جدیدترین طبی آلات کے ساتھ دنیا کے بہترین ہارٹ سپیشلیسٹ بھی موجود ہیں۔ بعد میں حارث کے والدین سے پتہ چلا کہ ہسپیتال انتظامیہ نے ننھے مریض کو داخل کرکے کسی ڈونر سے عطیہ قلب کی تلاش شروع کردی ہے۔
تین مہینہ بعد حارث کے والدین کو ہسپیتال کی طرف سے خوشخبری دی گئی کہ کسی نامعلوم ڈونر (لازماً غیر مسلم) والدین کی طرف اسی عمر کے بچہ کے دل کا ایک ایسا عطیہ مل گیا ہے جو حارث کی جین سے پوری طرح میچ کر رہا ہے۔ اُس بچہ کا انتقال کس طرح ہوا ہے یعنی طبعی یا کسی حادثے کی وجہ سے اس بابت حارث کے والدین کوکوئی معلومات نہیں دی گئی  ۔ مقررہ تاریخ اور وقت میں دنیا کے ماہرترین ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے دنیا کے جدیدترین طبی آلات کے ساتھ چودہ پندرہ گھنٹوں کے ایک طویل اور پیچیدہ آپریشن کے ذریعے ننھے حارث کو نیا دل لگانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ تقریباً ایک مہینہ انڈر آبزرویشن رکھنے اور درجنوں ٹیسٹ انجام دینے کے بعد اب اس کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ حسب روایت و بلحاظ دوستی اس اتوار ہم، اس کی مزاج پرسی کو گئے۔ ننھا حارث کبھی اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ ہلکے پھلکے گیمز  اور کھبی اپنے ویڈیو گیمز میں مصروف تھا۔ والدین کی خوشیاں دیدنی تھیں، وہ حارث کے ہر ایکشن پرفدا ہورہے تھے۔ اب ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ کاش وہ کبھی اس بچے کے والدین سے مل کر ان کے ہاتھ پاوں چومیں اور انکا شکریہ ادا کریں جنہوں نے اپنے لخت جگر کے دل کا عطیہ دے کر ان کے بچے کو ایک نئی زندگی بخشی۔

قارئین کرام !
ذرا اندازہ لگائیں کہ حارث ایک پاکستانی نژاد مسلم ہے اور بدقسمتی سے خود مسلمانوں میں اپنے اعضاء کو عطیہ کرنا شرعی لحاظ سے اگر حرام نہیں تو معیوب ضرور ہے (گذشتہ ادوار میں مطلقاً حرام گردانا جاتا تھا)۔ پھر وہ ایک نئے ملک میں مقیم ہے، جہاں کی تہذیب و ثقافت، آداب و اطوار، عقیدہ و زبان سب کچھ اس سے مختلف ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود اس کو تین مہینے کے اندر  قلب یعنی دل جیسے نایاب، عضو کے عطیے کا مل جانا، اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ یہاں کے لوگ کس قدر رنگ، نسل، زبان، عقیدہ و جغرافیہ سے ماورا اور انسان دوست ہیں اور یہاں کا نظام کس قدر عادلانہ ہے۔ حارث کے والدین کے مطابق علاج و معالجہ کے اس طویل عرصے کے دوران کل اخراجات ایک ملین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہوے ہیں جن میں سے انہیں ایک پینی (ایک پیسہ) بھی نہیں دینا پڑا ہے۔ ایک اور سبق آموز پہلو یہ کہ ہسپیتال میں داخل ہونے کے فوراً بعد، حارث کے سکول کی انتظامیہ نے ہسپیتال انتظامیہ سے رابطہ کرکے اس کمرہ کو ایک طرح سے کلاس روم کا درجہ دےدیا اور پیر تا جمعہ کبھی آن لائن اور کبھی اِن پرسن (حضوری) باقاعدہ کلاسز کا سلسلہ شروع کرادیا۔ یاد رہے کہ سکول بھی سرکاری ہے جس کی ایک پینی فیس نہیں۔ اب یہی انتظام، حارث کی مکمل صحت یابی تک اس کے گھر سے جاری ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی، ڈاکٹر صاحب خود اور اس کی بیگم دو مختلف کمپنیوں میں ملازمت کر رہے ہیں۔ ان کمپنیز تک جب بات پہنچی تو انہوں نے بھی ان کو دفترآنے کے بجائے آن لائن ڈیوٹی سرانجام دینے کی اجازت دیدی۔ ان کے مطابق ہسپتال میں حارث کے داخلے کے دوران ان میں سے ایک، ہسپتال کے ایک مخصوص کمرہ سے اور دوسرا گھر سے آفس کے کام نمٹاتے تھے۔ اب ان کے آفس کام کا ٹائم ٹیبل اس طرح رکھا گیا ہے کہ ایک ہفتہ دونوں میں سے ایک گھر سے آن لائن جبکہ دوسرا آفس چلا جاتا ہے اور اگلا ہفتہ دوسرا۔ ان کی کمپنیاں سرکاری نہیں جو پاکستان کی طرح سفارشیوں کےلئے خالہ کا گھر ہو، یہ پرائیویٹ ہیں اور ڈالر کمانے کےلئے بنائی گئی ہیں، لیکن چونکہ یہاں کا نظام انسان دوست ہے اس لئے انسانی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے انہیں یہ نظام فیسی لیٹیٹ کرتا ہے
بظاہر یہ ایک الف لیلوی تخیلاتی کہانی لگتی ہے جوکہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقی داستان ہے جو اسی دنیا کے ایک کافر ملک امریکا میں میری آنکھوں کے سامنے وقوع پزیرہوئی اور ہو رہی ہے۔ یاد رہے سوشل جسٹس کے حوالے امریکہ کا شمار شاید دنیا کے 20 بہترین ممالک کے فہرست میں بھی نہ ہو، بہترین ممالک میں کیا کیا سہولیات ہیں، اسکا تصور ہمارے لئے سرے سے نا ممکن ہے۔ وہ ایسے ممالک ہیں جو مولویوں کی جنت موعود یا پنڈتوں کے سورگ سے کہیں بہتر ہیں اور جو اسی دنیا میں موجود ہیں۔ یاد رہے کہ علامہ اقبال نے سو سوا سو سال پہلے کہا تھا کہ:
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
یہاں ہر قریہ فردوس تو ہے جو یکجا ہوکر ایک بڑے عالیشان فردوس کو تشکیل دیتے ہیں جہاں معیار انسان دوستی اور صرف انسان دوستی ہے۔ ایک کافر ملک کے کافرباشندوں کے اس طرح کے کرتوت کے لکھنے کا خیال اس طرح آیا کہ چند سال پہلے جب پاکستان میں ہزارہ نسل کشی عروج پر تھی تو ایک بڑے سانحے کے بعد جس میں درجنوں لوگ جان بحق ہوئے تھے، ایسے میں آئی ٹی یونیورسٹی بس پر خودکش دہشت گرد حملے میں اپنی دونوں آنکھوں سے محروم ہونے والے ایک نوجوان کی ماں کی طرف سے یہ اپیل آئی تھی کہ “خدارا ان میں سے کسی ایک کا وارث، اگر جان بحق فرد کی صرف ایک آنکھ کا عطیہ دیں تو میرے لخت جگر کی زندگی میں پھر سے روشنی آئے گی”۔ لیکن ہمارے ہاں وہ انسانی دید اور ماحول نہ ہونے کے باعث اس بیچاری ماں کی فریاد صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ دوسری طرف بقول مولوی حضرات صرف کافر ملک امریکہ میں سالانہ چار ہزار  کے قریب لوگ رضاکارانہ عطیہ قلب سے ٹرانس پلانٹ کرواکر ایک نئی اورصحتمند زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ گردہ، جگر وغیرہ کے ڈونیشنز سے بذریعہ ٹرانس پلانٹ فیضیاب ہونے والے لوگوں کی سالانہ تعداد ہزاروں میں ہے، جن میں ہر رنگ نسل، عقیدہ وکلچر کے لوگ شامل ہیِں۔
دوسری طرف اگر ہم 54 اسلامی ممالک کی طرف دیکھیں تو ان میں سے ایک بھی ملک ایسا نہیں جس کو ہم فخر سے بطور نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرسکیں کہ ہمارا ذکربھی انسان دوستی کی کتاب کے کسی صفحہ پر موجود ہے۔ بطور خاص ان میں سے دو ممالک جو سب سے زیادہ اسلام، اسلام اور بہترین، بہترین کا ڈھنڈورہ پیٹنے والے ممالک یعنی طالبان کی امارت اسلامی اور ایرانی ولایت فقیہ کی کی کارکردگی اس قدر شرمناک اور انسان دشمن ہے کہ جس کا موازنہ صرف عشروں پہلے جنوبی افریقہ پر مسلط نسلی برتری پر مبنی سفید فام حکومت سے ہی کیاجاسکتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، چند سال قبل 12 سالہ افغانستانی بچی لطیفہ رحمانی کی شیراز میں دردناک موت کے بعد معلوم ہوا کہ ولایت فقیہ کے ملک میں یہ اسلامی قانون موجود ہے کہ “ایران میں کسی غیر ایرانی خاص طوپر افغانستانی کو اعضاء کی پیوندکاری کی اجازت نہیں خواہ وہ قانونی پر ہی رہتا ہو”۔ یاد رہے کہ لطیفہ رحمانی جگر کے عارضہ میں مبتلا تھی جسکا واحد علاج، ٹرانس پلانٹ تھا جو اس وحشیانہ ایرانی اسلامی قانون کے باعث ممکن نہ ہوسکا اور وہ اس دار فانی سے کوچ کرگئی۔

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *