ہر سال بالعموم پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں آٹھویں، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات شروع ہوتے ہی طالب علموں میں نقل کا رحجان بھی زور و شور سے شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں جہاں کہیں بھی امتحان ہو، وہاں نقل ضرور ہوتا ہے اور یہی وہ آسان وجہ ہے جس کے سبب طلبا و طالبات پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ امتحانی ہال میں ہی جب آسانی سے نقل مل جاتی ہے، تو انہیں مزید پڑھنے کی ضرورت کیا ہے۔ بعض طلبا یا طالبات پڑھنے والے ہوتے ہیں، مگر جب بورڈ امتحان میں نقل کی وجہ سے نالائق دوستوں کے نمبرز ان سے زیادہ آجاتے ہیں، تو وہ دلبرداشتہ ہوکر پڑھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ اساتذہ انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کرتے ہیں کہ دلبرداشتہ نہ ہوں، پڑھائی مت چھوڑنا اور نقل کرنے والوں کا راستہ ہمیشہ بند ہی ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ انٹرمیڈیٹ تک نقل کرکے اچھے نمبروں سے پاس ہوجائیں گے، مگر اس کے بعد یونیورسٹی یا مختلف اسکالرشپس کے امتحانات میں نقل کے دروازے ان پر بند ہوں گے۔ اس بات پر بہت سے طلبا و طالبات میں حوصلہ تو پیدا ہو جاتا ہے، مگر زیادہ تر کو ایسی باتیں مذاق ہی لگتی ہیں اور دوبارہ پڑھائی کی طرف آنے سے گریز کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی۔ جس میں یہ دکھایا گیاتھا کہ ایک امتحانی ہال میں تمام طلبا کے پاس موبائل ہے اور سب موبائل سے دیکھ کر اپنا امتحانی پرچہ حل کررہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور ویڈیو بھی تھی، جسے کسی لڑکی نے بنائی تھی۔ اس ویڈیو میں وہ لڑکی امتحان دینے والی لڑکیوں کی ویڈیو دکھا رہی تھی، کہ کس طرح امتحانی ہال میں لڑکیاں نقل کرنے میں مصروف ہیں۔ پھر وہ لڑکی ممتحنہ/Examiner کی طرف کیمرہ کرکے کہہ رہی تھی، کہ یہ ہم سب کی پسندیدہ مس ہے۔ (شاید اسی لئے پسندیدہ ہو، کیونکہ وہ ان سب کو نقل کرنے کی مکمل چھوٹ دیتی تھی) پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان سے نقل کا خاتمہ تو بالکل ناممکن ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔
بلوچستان سے نقل کا خاتمہ نہ ہونے کی ایک وجہ ”والدین“ خود ہیں۔ والدین خود امتحان کے دنوں میں امتحانی مراکز جا کر سپریٹنڈنٹ سے اپنے بچوں کی سفارش کرتے ہیں کہ انہیں امتحان میں نقل کرنے کی چھوٹ دے دیں، تاکہ ان کے بچے اچھے نمبروں سے پاس ہوجائیں۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں اچھے نمبر آجائیں تو ٹھیک ہے۔ کیونکہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں حاصل کردہ نمبر زیادہ ہو تو مختلف اسکالرشپس حاصل کرنے اور مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے چانسز زیادہ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ آٹھویں جماعت میں کسی بھی طالب علم کا نمبر چاہے زیادہ ہو یا کم، اس سے اسکالرشپس اور یونیورسٹی میں داخلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر افسوس اس بات پر بہت ہی زیادہ ہوتا ہے کہ بہت سے والدین آٹھویں جماعت کے امتحان کے لئے بھی ایگزیمنر سے اپنے بچے کو نقل کروانے کی منتیں کرتے ہیں۔ افسوس اس بات پر اور بھی زیادہ ہوتا ہے کہ والدین خود یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھنے والے نہیں ہیں۔ اس کے باوجود وہ ان کی سفارش کرتے ہیں، تاکہ امتحان میں ان کے نمبر زیادہ آجائیں۔ اگر نقل سے آٹھویں، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں کسی بچے کا نمبر زیادہ آجائے اور اسے کچھ آتا بھی نہ ہو تو اس کا فائدہ کیا؟ انٹرمیڈیٹ کے بعد وہ اسکالرشپس یا مختلف یونیورسٹویوں میں داخلہ تو نقل سے حاصل نہیں کرسکتا۔
نقل ختم نہ ہونے کی ایک وجہ خود اساتذہ اور چپڑاسی صاحبان بھی ہیں۔ یعنی بہت سے اساتذہ خود امتحانات کے دنوں اپنے عزیز و اقارب کو نقل پہنچاتے ہیں یا ان کی سفارش متعین ممتحن/Examiner سے کرتے ہیں۔ بہت سے اساتذہ ایسے بھی ہیں جو امتحانات کے دنوں اپنے کسی رازدار اسٹیشنری والے سے 50 فیصد کی بنیاد پر نقل کی فوٹواسٹیٹ تیار کراتے ہیں۔(یعنی: نقل کی منفعت سے ملنے والی کل رقم کا نصف حصہ) امتحانی ہال سے جب پرچہ کسی چپڑاسی یا پرچے کی تصویر واٹس ایپ کی مدد سے اسٹیشنری والوں تک پہنچ جاتا ہے، تو مختلف اساتذہ اسے جلدی جلدی حل کرکے فوٹو کاپی بنانے کے لئے دیتے ہیں۔ جب اسٹیشنری والے سارے سوالات کی حل شدہ کاپی نکال کر تمام سوالات کے سیٹ بناتے ہیں، تو متعلقہ امتحانی ہال کا چپڑاسی یا پرچہ دینے والوں کے یار، دوست اسے اسٹیشنری والوں سے خریدتے ہیں۔ چپڑاسی اپنے پیسوں سے خریدے گئے نقل کا سیٹ بنا کر امتحانی ہال میں دوبارہ داخل ہوتا ہے اور بچوں پر انہیں دگنے تگنے دام پر فروخت کرتا ہے اور اگر پرچہ دینے والوں کے باہر بیٹھے ہوئے یار، دوستوں سے نقل کا سیٹ متعلقہ طالب علم تک پہنچانے کے لئے لیتا ہے، تو وہ اس کا معاوضہ وصول کرتا ہے۔ بلوچستان کے بعض ایسے اسکولز اور کالجز بھی ہیں جہاں نقل کا سیٹ پہنچانے کے لئے چپڑاسیوں کی ضرورت نہیں پڑتیں، بلکہ والدین اور یار دوست امتحانی ہال میں داخل ہو کر نقل اپنے دوست یا بیٹے تک پہنچا کر ایسا فخر محسوس کرتے ہیں، کہ گویا اس نے دنیا فتح کی ہو۔
نقل ختم نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ خود بورڈ آفس والے بھی ہیں۔ یہ لوگ خود نقل ختم نہیں کرانا چاہتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بورڈآفس والے بہت سے امتحانی ہالز کو بیچتے ہیں۔ یعنی امتحانی ہال میں بطور سپریٹنڈنٹ لگنے کے لئے اساتذہ سے اچھی خاصی رقم وصول کرتے ہیں۔ جب اساتذہ رقم دے کر اپنے من پسند امتحانی ہال میں بطور سپریٹنڈنٹ اپنی فرائض انجام دینے کے لئے منتخب ہوتا ہے، تو وہی اساتذہ چپڑاسیوں سے دگنی رقم وصول کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے چپڑاسی کھلے عام بچوں کو نقل کا سیٹ فروخت کرتا ہے۔ اسی طرح نقل کو ختم نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بورڈ آفس والے چاہتے ہیں کہ بچے زیادہ سے زیادہ پاس ہوجائیں، تاکہ ان کی کارگردگی بہتر سے بہتر دکھائی دے۔
بہرحال: پڑھائی سے بیزار ایک طالب علم، نقل کرنے سے چاہے جتنا بھی زیادہ نمبر حاصل کرلے اس کا مستقبل تاریک ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ ایف ایس سی کے بعد مختلف اسکالرشپس یا اچھی یونیورسٹی میں داخلہ حاصل نہیں کرسکتا۔
تو کیا یہ بہتر نہیں، کہ کیوں نہ؛ ایسے معیوب فعل دہرانے کی بجائے، بہ نفس نفیس طلبا و طالبات کتابوں ہی سے ”نقل“ اتار اتار کر اپنے دماغوں اور ذہنوں کو فربہ بنائیں؟
- ٹپ اور کرایہ! سو لفظوں کی کہانی ۔۔۔ عارف چنگیزی - 05/10/2023
- کرایہ! سو لفظوں کی کہانی ۔۔۔ عارف چنگیزی - 14/09/2023
- سو لفظوں کی کہانی، جلاؤ گھیراؤ ۔۔۔ عارف چنگیزی - 20/08/2023