آتم ہتیایاہتیا ۔۔۔ علی رضا منگول

      اِنسانی معاشرہ کثیرالجہتی ہے اور اس میں بے شمار شعبے ایک دوسرے سے نہ صرف جڑے ہوئے ہیں بلکہ باہم برسرپیکار بھی ہیں۔  ان تمام گوں نا گوں شعبہ ہائے زندگی کے تحت انسانی سوچ اور شخصیت کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے۔  یونانی فلسفی ارسطو کے بقول:  ”انسان فطرتاًسماجی حیوان ہے۔“  جو سماج میں رہتا اور اسی سے اثرات لیتا یعنی سیکھتا رہتا ہے۔  انسان چاہے یا ناچاہے،  معاشرے کے دیگر انسانوں اور اپنے حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔  اِنسانی شخصیت کی ترتیب و تعمیر،  ذہنی نشوونما اور نفسیات کی تشکیل میں سماجی حالات،  سیاست،  معیشت،  فطرت اور ثقافت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔  کسی بھی شعبہ زندگی سے وابستہ افراد ان شعبوں میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ایک ہی کام کو بار بار دہرانا ہوتا ہے۔  اس طرح ایک ہی مخصوص دائرے اور ماحول کے زیر اثر رہنے کے سبب انسانی سوچ اور نفسیات یک خطی طرز فکر پر استوار ہوجاتی ہے۔  اس یک خطی طرز فکر کا نقص یہ ہے کہ اِنسان دیگر شعبہ ہائے زندگی سے کٹ جاتا ہے اور اپنے ہی محدود دائرے کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے۔  معمول کے حالات میں انسان ساری زندگی اپنی نفسیات یا لاشعور سے باہر نہیں نکل سکتا اس طرح وہ نئے خیالات اور دوسروں کی فکر و نظر کو کم ہی قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

      معاشرے میں رہنا اور معاشرہ ہی سے آزاد رہنا ناممکن ہے۔  ہم ایک نیم قبائلی سماج کا بھی حصہ ہیں،  لہٰذا ہمارا طرزفکروعمل اس سے ماورا نہیں ہوسکتا۔  کیونکہ اس کے آثار اٹھتے بیٹھتے ہماری زندگی کے طورطریقوں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔  ہمیں حالات کے بدلنے کا احساس نہیں ہوتا کہ نئے حالات اور نئی ٹیکنالوجی کی بدولت نئی نسل کی سوچ کس قدر بدل چکی ہے۔  صرف یہی نہیں بلکہ ہم مشکل حالات میں جمع کردہ (پیسہ) دھن دولت کو بھی اپنے سخت کنٹرول اور حفاظت میں رکھنے کے نہ صرف عادی ہوچکے ہیں بلکہ مزید جمع کرنے کو اپنا شعار بھی بنا لیا ہے۔  یوں ہم نہ صرف معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں سے بھی بے نیاز ہو گئے ہیں،  بلکہ اپنے خاندان اور اولاد سے بھی بیگانگی کا شکار ہوگئے ہیں،  جس کے زیاں کا ہمیں اندازہ نہیں۔  ایسے میں ہم بہت بڑے نقصان کو بھی حادثہ سمجھ کراس سے چشم پوشی کرتے ہیں اور بہت جلد ہی اسے بھول کر پھر سے اپنی نفسیات کے تابع ہو کر اسی پرانی ڈگر پر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔

      ایک مخصوص دائرے میں طویل عرصہ تک رہنے کی بدولت ہر کوئی اپنے تجربات کو حتمی سمجھتے ہوئے غیر لچکدار اور کرخت رویہ اپنانے پر مجبور ہوتا ہے۔  نتیجتاً نئے حالات اور ان سے متاثرہ سوچ و نفسیات کی تشکیل سے بے خبر اپنی زندگی کے تجربات کے برآمد نتائج کو نئے حالات پر مسلط کرنے کوشش کرتا ہے۔  جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی مرضی کو معاشرے کے دیگر لوگوں،  نئی نسل اور حتیٰ کہ  اپنے ہی بچوں پر غالب ٹھہرایا جاتا ہے۔  جہاں سے پھر ایک بغاوت اور رشتوں سے لا تعلقی کا اظہار اور بیگانگی جنم لیتی ہے۔  اس طرح ہردو جانب بے خبری میں بیگانگی کا شکار ہوکر ایک دوسرے سے اور معاشرے سے کٹ جاتے ہیں۔  معاشرے سے بیگانہ ہونے کے نتیجے میں دراصل ہم اپنی ذات سے بھی اجنبی و انجان ہونے لگتے ہیں۔

      اِنسانی معاشرے سمیت پوری کائنات ایک جبری ترتیب اور نظم کے تحت چل رہی ہے۔  اس فطری جبر کا اِدراک اور سمجھ ہی دراصل اِنسانی شعور کی دلیل ہے۔  گوں نا گوں اِنسانی معاشرے کا اِدراک بہت حد تک ممکن ہے،  مگر جس طرح معاشرہ کثیرالعباد(Multi dimensional)  ہوتا ہے اسی طرح معاشرے کو درست طور سمجھنے کے لئے سماج کے زیادہ تر ابعاد سے متعلق پہلوؤں پر دسترس حاصل کرنا لازم ہے۔  خصوصاً اِنسانی نفسیات اور اس کے عقب میں کارفرما جبری عوامل کو سمجھے بنا اِنسانوں کی فکر و عمل کو نہیں سمجھا جاسکتا۔  کیونکہ اِنسانی سوچ کے عقب میں سماجی حالات اور سماجی موجودات کا اثر بنیادی محرکات ہیں۔  اپنے اِردگرد کے حالات کا دقیق اور مسلسل مطالعہ اور نئے تقاضوں تک پہنچ کر بہت حد تک معاشرے میں درست شعوری مداخلت کرکے خرابیوں کے مضر اثرات کو روکا یا کم ضرورکیا جاسکتا ہے۔

      معاشرتی عمل کا اَثر اِنسانی ذہنوں پر اور اس کے برعکس اِنسانی عمل کا معاشرے کی تبدیلی کے ساتھ ایک جدلیاتی رشتہ ہے،  جس کی دوطرفہ تاثیر اور اس کے نتائج کو جاننے کی ضرورت ہے۔  فکر و عمل کا جامد رہنا فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔  کیونکہ فطرت میں کوئی بھی شے ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں بھی ساکن نہیں ہوسکتی۔  اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جامد رہ کر ہم فطرت اور معاشرے کے خلاف چلتے ہوئے اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔  کیونکہ ہم بذات خود فطرت ہی کا حصہ ہیں۔

      معاشرے میں نوجوانوں کی اپنی ذات،  خاندان اور معاشرے سے بیگانگی کی سب سے بڑی وجہ معاشرتی حالات ہے۔  مگر اس کے ساتھ ساتھ والدین کی یک خطی طرزفکر بھی اس سے مبرا نہیں۔  یہ خیالات سخت سماجی دباؤ کے تحت جبراً ہماری نفسیات کا حصہ بن رہے ہیں۔  جس کی بنیادی وجہ بہت حد تک معاشی ابتری و افراتفری کو قرار دیا جاسکتا ہے۔

      حالات سے اخذ کردہ نتائج کی بنیاد پر اکثر لوگ معاشی برتری کو برقرار رکھنے یا معیشت کو سدھارنے کے چکر میں بے چینی اور ذہنی اضطرابِ میں گرفتار نظر آتے ہیں۔  جبکہ ہمارے پاس نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے کے لئے کوئی پروگرام نہیں۔  کیونکہ ہم نوجوان نسل کی جانب سے مکمل غافل ہوتے جارہے ہیں۔  اس غیرلچکدار طرز عمل کا شدید منفی ردِعمل اور نہایت غیرمتوقع نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں،  جو شدید مایوسی،  منشیات کے استعمال،  انتقام جوئی اور شدت پسندی یا خودکشیوں کی شکل میں برآمد بھی ہو رہے ہیں۔

      نوجوانوں کی اس حالت کا ذمہ دار گوکہ زیادہ تر نزاعی حالت میں مبتلا نظام ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔  البتہ والدین کی پسماندہ یک خطی سوچ اور نفسیات کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اگر والدین اپنے حالات کا شعوری طور پر جائزہ لے سکیں تو ایسے حالات سے بچا جاسکتا ہے۔  نوجوان نسل کو اپنی طبعی عمر پورا کرنے کا اتنا ہی حق ہے جس قدر ہم اس سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔ اب ان نو جوانوں کی خودکشیوں کا ذمہ دار پورے معاشرے کو،  دم ہارتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو،  یا پھر والدین کی پسماندگی کی بدولت ان کی ہٹ دھرمیوں کو ٹھہرایا جانا چاہیے۔

  نوجوانوں کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔  انہیں نئے حالات کے تقاضوں کے تحت اپنی زندگیاں جینے کی آزادی ملنی چاہیے۔  ایسا ماحول اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب والدین اپنی کرختگی کو لچک میں تبدیل کریں اور اپنے تجربات کے نتائج مسلط کرنے کی بجائے نئی نسل کے سامنے رکھ دیں۔  باقی انہیں من و عن قبول کرنا،  یا ان سے انکار کرنا انہی کا حق ہے۔

      اب ایک سوال پوری سوسائٹی سے یہ ہے کہ نوجوانوں کا یہ انتہائی اقدام آتم ہتّیا ہے؛  یا پھر ہتّیا؟  خودکشی ہے؛  یا قتل  اور اس کا بنیادی ذمہ دار کون ہے؟

  ہمارا اس جواب تک پہنچنا ضروری ہے،  تاکہ اس کی روک تھام کے لئے اقدام کیا جاسکے۔

علی رضا منگول
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *