ایران کا اسلامی انقلاب ایک سراب ۔۔۔ اسحاق محمدی

عام طورپر انسانی  شعوری  کی ابتدا کو 14 سال کی عمر سے شمار کیا جاتا ہے۔ تقریباً اسی عمر میں مجھے اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ محلے  کی امام بارگاہوں سے نکل کر علمدار روڑ اور کھبی امام بارگاہ ہزارہ کلان میں ایام محرم اور عاشورای عشرہ ثانی کے مجالس جانے کے مواقع ملے۔ اس دور میں (1976 تا 1985ء) کوئٹہ کی حد تک معروف شیعہ خطیب و ذاکرین جیسے سید ذوالفقارشاہ، ذوالفقار جعفری، مظہر دیوبندی، غلام حسین ڈھکو، گلفام ہاشمی وغیرہ مختلف امام بارگاہوں میں مجالس پڑھنے آتے تھے لہٰذا ان کو سننے کے بارہا مواقع ملے۔ اسی دوران ایک طرف افغانستان میں انقلاب ثور آیاتو دوسری طرف پاکستان میں جنرل ضیاء سنی مکتبہ فکر کے تحت اسلامی نظام لانے کا ڈھنڈورہ پیٹنے لگا جبکہ تیسری طرف ایران میں خمینی صاحب کے زیر قیادت شیعہ مکتب فکر کے لحاظ سے نظام لانے کی شروعات  ہوئیں۔ ایسے میں ان ذاکرین کے زور خطابت، سیاست اور ماحول سے متاثر ہوکر مجھ سمیت حاظرین و ناظرین کی اکثریت کو یقین ہوچلا تھا کہ چونکہ تمام اصل اسلامی منابع ومواخذ ہمارے قبضے میں ہیں، لہذا ایران میں ایک مستند مجتہد کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی صورت میں، انسانی تاریخ کی بہترین اور مثالی نظام حکومت اگر کہیں بن سکتی ہے تو وہ ایران ہے۔ ہمارے ان خیالی تصورات کو اس وقت مزید تقویت ملی، جب ایران میں خمینی صاحب نے فروری 1979ء میں انقلاب کی کامیابی کے بعد ایرانی عوام کو اس دور کے معروف نعرہ “روٹی، کپڑا اور مکان” دینے کے ساتھ ساتھ پانی، بجلی اور مفت سواری کے ساتھ ہر طرح کی سیاسی اورمذہبی آزادیاں دینے کا بھی وعدہ کیا۔  خمینی صاحب کے زیر قیادت اس اسلامی حکومت کو اندرونی طوپر طاقتور مذہبی حلقوں  کے ساتھ ساتھ ایرانی عوام کی اکثریت کی بھی زبردست حمایت حاصل تھی۔ مزید یہ کہ ایران سے باہرآباد مسلمانوں بطور خاص شیعہ آبادی کی ہمدردی اور حمایت بھی اس نئی انقلابی حکومت کے ساتھ تھی۔ 

بدقسمتی سے انقلاب کے آغاز میں ہی سیاسی مخالفین کے خلاف بے رحمانہ، مذہبی اقلیتوں بطور خاص یہودیوں اور بہائیوں کے خلاف مخاصمانہ  اور خواتین کے خلاف جنسی امتیازی سلوک کے رویوں کے  باعث اندرونی اور بیرونی طورپر ہمسائیہ ممالک سمیت اہل مغرب سے مخاصمانہ پالیسی کے سبب ولایت فقیہ کی یہ نئی حکومت مشکلات سے دوچار ہوئی۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مزید ستم یہ ہوا کہ انتظامی امور میں نااہلی، مالی امور میں بدترین کرپشن کے کیسز اور اعلیٰ ترین قیادت میں لوٹ کھسوٹ اوراقرباء پروری کی ہوشرباء داستانوں کے نہ رکنے والے سلسلے کے باعث، تیل، گیس و دیگر معدنیات سے مالا مال ایران، مزید تیزی سے تباہی کی طرف گامزن رہا۔ حالانکہ شاہ خود ایک ڈِکٹیٹر تھا لیکن اسکے دور میں ایران:

  • اقتصادی لحاظ سے خلیج کا سب سے خوشحال ملک تھا۔
  • جدید تعلیم اورخواتین کے حقوق کے لحاظ سے بھی سرفہرست تھا
  • اقلیتوں کے حقوق کے لحاظ سے بھی حالات کافی بہتر تھے
  • فوجی لحاظ سے خلیج کا ژندارمری یعنی تھانیدار کہلاتا تھا

لیکن ملاؤں کے اس 44 سالہ سیاہ دور حکومت میں ایران:

  • خلیج کا فقیرترین ملک بن چکا ہے
  • اقلیتوں بطور خاص یہودیوں اور بہائی فرقہ کیلئے ایران جہنم بن چکا ہے
  • خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے حوالے سے بدترین ملک بن چکا ہے
  • کرپشن، خوردوبرد، رشوت ستانی میں دنیا کے چند ٹاپ ملکوں میں شمار ہوتا ہے

یاد رہے کہ بدترین کرپشنز اور خورد و بُرد میں زیادہ تر برسر اقتدار ملاؤں کا طبقہ اور ان کے مسلح حواری سپاہ پاسداران اور بسیج کے سرکردہ افسران ملوث ہیں، جبکہ ملاؤں میں ایک عام حجت الاسلام سے لے کر بڑے بڑے آیت اللہ سبھی آلودہ ہیں۔ لاقانونیت کی انتہا دیکھیے کہ کھربوں تومان کے غبن کرنے والے رفیق دوست، شہرام، رضا رحیمی و دیگر سینکڑوں بڑے بڑے مجرمین یا پھر درجن کے قریب نوعمر قاریین قران  لڑکوں سے جنسی زیادی کرنے والا قاری سعید طوسی اس منفور نظام کے بڑے گرگوں کے قریب ہونے کی وجہ سے معاف ہوجاتے ہیں جبکہ محض اپنے بالوں کو اچھی طرحسے نہ چھپانے کی پاداش میں مھیسا امینی جیسی درجنوں خواتین موت کے گھاٹ اتاردی جاتی ہیں حالانکہ بے حجابی اور بد حجابی کی سزا نقد، جرمانے اور قید کی سزا کی صورت خود ان کی اسلامی تعزیرات میں موجود ہیں۔ اس کے آشکارا معنی یہ ہے کہ اس منفور غیر انسانی نظام سے وابستہ ادارے اور اہلکاران خود انہی قوانین کا احترام نہیں کرتے کیونکہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسی بدترین پرفارمنس کی وجہ سے اب 44 سال بعد ایرانی عوام ایکبار پھر چند نئے معروف نعروں کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں جن میں چند درج ذیل ہیں:

مرگ بر دیکتاتور   (مراد خامنہ ای مردہ باد)

مرگ بر اصل ولایت فقیہ  (اصلِ ولایت فقیہ مردہ باد)

آخوند باید گم بشہ     (ملاؤں دفع ہوجاو) 

اگرچہ موجودہ ولی فقیہ سیدعلی خامنہ ای پوری ریاستی قوت کے ساتھ نہایت بے رحمی سے مخالفین کو کچلنے کی سیاست پر سختی سے کاربند ہے لیکن نوشتہ دیوار یہی  ہے کہ جلد یا بدیر اس منفور جابر اسلامی حکومت کی سرنگونی یقینی ہے۔ مزید یہ کہ اب تک ایران (شیعہ) سعودی عرب (وہابی)، سوڈان (بشری)، مصر (اخوانی)، پاکستان (جنرل ضیاء والا) اور افغانستان (طالبانی) کی سنی مکتبہ فکر کے حامل اسلامی حکومتوں کی ناکامیاں کھلی کتاب کی طرح سامنے آچکی ہیں۔ باقی شعبوں میں ناکامیاں اپنی جگہ، سب سے بنیادی شعبہ یعنی اقتصاد کو لیتے ہیں جس میں دونوں مکاتب فکر، اب تک ایک بھی قابل عمل منصفانہ اقتصادی نظام دینے میں سرے سے ناکام رہے ہیں جو موجودہ مغربی سودی نظام کی جگہ لے سکے، حالانکہ  سعودی عرب کی اسلامی حکومت بنے کم از کم 90 سال اور ایران کو 44 سال کا عرصہ ہوچکا ہے(سوڈانی، مصری، پاکستانی اور طالبانی  حکومتی ادوار کو شامل کیاجائے توان کا عرصہ دو سو سال کے قریب جا پہنچتا ہے)۔ ان تمام ناکام تجربات نے یہ حقیقت ثابت کردی ہے کہ کسی بھی فرقہ کے پاس اچھی حکومت داری کا کوئی قابل عمل نسخہ سرے سے موجود ہی نہیں جو موجودہ دور کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہو اور کسی ملک اور خطہ کے عوام کو امن، خوشحالی اور منصفانہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عدلی نظام دے سکتا ہو۔ مزید اس طرح کے نعرے عوام فریبی اور دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے میں جب میں ایران سے باہر کے ممالک جیسے پاکستان، افغانستان وغیرہ میں کسی شیعہ ملا، خطیب یا ذاکر کو اسلامی نظام لانے کی بات کرتے  سنتا ہوں تو بے اختیار آیت اللہ علی محقق نسب کا یہ قول یاد آتا ہے کہ:

“اقلیت میں ہوتے ہوئے اگر کوئی شیعہ ملا اسلامی نظام لانے کی بات کرے تو سمجھ لینا کہ یا تو وہ نرا جاہل اور بیوقوف ہے یا پھر ولایت فقیہ کا تنخواہ خور پِٹھو”۔ جہاں تک دیگر اکثریتی مکاتب فکر کے ملاؤں کی طرف سے اس طرح کے دعوؤں کی بات ہے، تو ظاہر ہے وہ بھی ایرانی ملاؤں کی طرح عوام کو فریب دے کر اقتدار کے مزے لینے کے درپے ہیں۔

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *