یورپ یاترا !  ( دوسری قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی

 پیرس کے بعد میری اگلی منزل اٹلی کادارلحکومت روم تھی۔  یہ شہر بحرہ روم سے تقریباً 20    کلومیٹر  کے فاصلے پر دریائے  ٹیبر کے کنارے آباد ہے۔ روم کا شمار یورپ کے ان چند محدود شہروں میں ہوتا ہے جن کی تاریخ    ماقبل مسیح   سے جا ملتی ہے۔  اس شہر کی بنیاد آٹھویں  صدی قبل از مسیح  میں پڑی  اور اس کے عروج   کا دور  دوسری صدی   تا  چوتھی صدی عیسوی  کی ابتدا تک رہا  ۔ اُس وقت  روم  شہر کی حیثیت  “ورلڈ کیپیٹل” کی رہی۔   اس کی موجودہ  آبادی      چار اعشاریہ  تین ملین ہے اوریہ   دنیا کے ایک معروف سیاحتی  شہر  کے طور پر شہرت رکھتا  ہے۔  دنیا بھر  سےسالانہ  10 ملین  سے زائد سیاح اس شہر کا رخ  کرتے ہیں۔ دن رات چہل پہل اور میلوں ٹھیلوں کی وجہ سے اسے لائیولی یعنی زندہ شہر کہا جاتا ہے۔ جس وقت میں،  روم پہنچا  سیاحت  کے لحاظ  سے سیزن آف تھا  (پیک  سیزن  جون تا اگست ہے)  لیکن پھر بھی  ہر طرف سیاحوں کی بھیڑ  تھی  اور تنگ  گلی  کوچوں  کے باعث   چلنا پھرنا  قدرے  مشکل  تھا ۔  تنگ  گلیوں نیز بھیڑ بھاڑ کے باعث یہاں لوگ  زیادہ تر دو سیٹوں والی مِنی کاروں  اور چھوٹی  گاڑیوں  کو ترجیح  دیتے  ہیں۔

یہاں  میرا  میزبان محمد جان آزاد تھے جنہیں  میں  ان کے بچپن  سے جانتا ہوں۔ اب وہ  یہاں روم میں سٹورز کے   ایک سلسلے کو کامیابی  سے چلانے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی تنظیم  “نوروز” کے بھی کرتا دھرتا ہیں۔   روم  آمد کے اگلے  دن اتوار تھا۔ میرے مہربان میزبان نے  ویٹیکن سٹی دیکھنے کا  پروگرام بنایا جو  قرون وسطی کے تاریک  دور میں   صدیوں ، پورے براعظم یورپ  کے سیاہ   و سفید  کا  مالک  تھا ۔کس کو تخت    نشین  کرنا ہے یا کس کا تخت گرانا، یہ گویا  پاپائے اعظم  کے  مذہبی فرائض  کا لازمی حصہ تھا۔   اس دن توقع  سے زیادہ  بھیڑ تھی، اس لیے  کہ  پوپ  صاحب  کی  سالگرہ  تھی۔ سو  ان کی مفت  میں   تقریر  سنے کا موقع بھی ملا۔ ویٹیکن  سٹی  ،کئی  شاندار   محل نما عمارتوں  پر مشتمل ہے جس کے مرکز  میں سینٹ پیٹر باسیلیکا    چرچ  کی عمارت کھڑی  ہے جس کے سامنے محل بھی شرمندہ ہے۔  خود  چرچ  میں داخلہ  مفت  ہے  لیکن      اوپر  اس کے  گنبد یعنی ڈوم  تک  بذریعہ لفٹ جانے کے لئے  ٹکٹ  لینا  پڑتا  ہے۔  ٹاپ تک چڑھنے  کے لئے کہیں  کشادہ  کہیں تنگ   سیڑھیاں طے  کرنی  پڑتی  ہیں  جن کی  تعداد  551 ہے۔ ڈوم  کے ٹاپ  سے پورے شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ وہاں   سے اتر کر  چرچ کے اندرونی حصوں    کو  دیکھا،  نہایت شاندار منقش کشادہ ہالز کے ساتھ  ہر کونے   کو شاندار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ چھتوں  میں  طلا کاری  اور فرش پر رنگ برنگے قیمتی  سنگ  مرمر دیکھ کر بے اختیار   پروٹیسٹینٹ  فرقہ  کے بانی “مارٹن  لوتھر کنگ ” کے وہ الفاظ  یاد آگئے کہ  “یہ تمام کر و فر   یورپ کے غریبوں  کی محنتوں  اور انکے خون پسینوں کی مرہون منت ہیں”۔ یاد رہے کہ مارٹن لوتھر  کینگ  (1483-1564 ) ایک جرمن کیتھولک پادری تھا۔ اس نے 1510ء میں اپنے سفر روم کے دوران جب  عوام سے بٹورے گئے  مذہبی ٹیکسوں پر  پاپ سمیت دیگر پادریوں کی شاہ خرچیاں اور عیاشیاں دیکھیں تو بہت دکھ ہوا ۔  واپسی پر  1512ء   میں 95  اعتراض آمیز سوالات  لکھ کر اپنے چرچ کے باہر آویزاں کردیے اور یہی سے پروٹیسٹینٹ فرقہ کی بنیاد پڑی ۔ اس سے  رینسانس یا   احیائے علوم   کی جاری تحریک کو مہمیز ملی جس کے نتیجے میں چرچ کی مذہبی بالا دستی اختتام کو پہنچی اور یورپ پر  سےتاریکی کے بادل چھٹ گئے  جن کے ثمرات آج ہم سب کے سامنے ہیں۔

ایک دن کا  ریسٹ لینے کے بعد   محمد جان صاحب  نےقدیم  رومن شہر کے مخروبہ  آثار  کی سیر کا پروگرام بنایا۔ آن لائن ٹکٹ لی۔ ان کے مطابق پیک سیزن میں  ٹکٹوں کے لئے   ہفتوں   پہلے  بکنگ کرنی پڑتی ہے۔ مقررہ  دن ہم صبح   آٹھ  بجے بذریعہ  ٹرین نکل  گئے  کیونکہ  اس  علاقے  کے آس پاس پارکنگ کا ملنا بہت مشکل  ہے۔ صبح  9 بجے  کے قریب  پہنچنے کے باوجود وہاں  کافی بھیڑ تھی لہٰذا  دیر تک  لائن میں لگ کر  قدیم  رومن کلوسیئم یعنی اسٹیڈیم جانے کی ہماری  باری آئی ۔ یہ  گول شکل کا ہے جس میں چاروں طرف کئی تہوں پر زینے بنے ہوئے ہیں اور عین درمیان  میں میدان اور میدان کے نیچے مختلیف کمرے  ہیں جہاں خونخوار شکاری جانور جیسے شیر وغیرہ پالے جاتے تھے اور ان کو بیچارے طاقتور غلاموں سے لڑایا جاتا تھا۔ شہنشاہ اپنے امراء    اورعوام کے ساتھ اس وحشیانہ اور خونین کھیل کا  تماشا دیکھ کر انجوائے کرتے تھے۔ یہ روم کی عظمت رفتہ کی یادگار کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ  کا ایک المناک اور شرمناک باب بھی ہے، لیکن اب  یہ  اٹلی کیلئے سالانہ اربوں یورو  کمانے کا   ایک ذریعہ ہے۔  بعد از آں کلوسیئم سے ملحق قدیم رومن شہر کا پوش علاقہ  دیکھا  جہاں  شہنشاہ،  اپنے امراء، سنیٹرز اور جرنیلوں کے ساتھ بود و باش رکھتے تھے۔ تمام مکانات  پکے  اینٹوں کے بنے ہیں اور اجتماعی نہانے کے تالاب دو ہزار سال گذرنے کے باوجود اب تک فنکشنل حالت میں موجود ہے۔ یہاں بھی ہر طرف سیاحوں کا ہجوم تھا جو انفرادی یا گروپوں کی صورت  گھوم پھر رہے تھے۔ یہاں تقریباً ہر بڑی زبان کا گائیڈ  پمخصوص رقم کی ادائیگی پر  بہ آسانی  مل سکتا ہے۔ اگرچہ اس مخروبہ شہر سے بھی ظلم، بربریت اور لوٹ مار کا نمایاں تاثر ملتا ہے، لیکن ہزارہ گی کا ایک خوبصورت مقولہ ہے کہ “کی استہ کہ زور داشت و ظلم نکد” یعنی تاریخ میں کون ہے جسےطاقت  ملی اور اس نے ظلم نہیں کیا ، خواہ  دارا ہو ،سکندر ہو، رومن ہو، عرب ہو کہ چنگیز یا کوئی اور۔۔۔ اور ۔ 

روم شہر کے تمام تاریخی آثار، عجائب گھروں، آرٹ گیلریوں کو تسلی سے دیکھنے کے لئے کئی ہفتے اور ڈھیر سارے یوروز کی ضرورت  ہوتی ہے۔ اس طرح تاریخی لحاظ سے ایک اور شہر   پومپی بھی دیکھنے کے لائق ہے جو پہلی صدی عیسوی میں آتش فشاں پھٹنے سے تباہ ہوا تھا  جسے اسی حالت میں بحال کرکے اب اوپن میوزیم میں تبدیل کیا گیا ہے، لیکن میرے پاس زیاد وقت نہیں تھا۔ لہذا  صرف وینس شہر کی سیر کا پروگرام بنا سکا  جس کی روداد اگلی قسط میں قارئین کی نذر کی جائےگی۔

ویٹیکن سٹی کو جانے  والی سڑک کے  دونوں اطراف کی  اکثر سوینئر شاپس اور فٹ پاتھ پر لگائے گئے  ٹھیلے  انڈین یا بنگلہ دیشی افراد چلارہے ہیں۔ روم شہر اور مضافات میں  افغانی مہاجرین بطور خاص ہزارہ مہاجرین بھی قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں ۔ میرے میزبان کے مطابق  افغانستان  میں ہزارہ قوم کی نسل کشی کو موثر انداز میں پیش کرنے  کی وجہ سے یہاں نئے ہزارہ مہاجرین کی قبولیت کی شرح کافی بلند ہے۔ بے روزگاری کی شکایت کے برعکس اس وقت   یہاں کام کرنے کے  مواقع ،کئی دیگر یورپی ملکوں سے بہتر ہیں۔  ان کے مطابق اس وقت اٹلی کے کسی بھی  بڑے شہر میں 16 یورو فی گھنٹہ کے حساب سے کام آسانی سے مل جاتا ہے جبکہ رہائش کا کرایہ بھی زیادہ نہیں ایک ڈبل بیڈ روم کا کرایہ  700 یورو کے آس پاس ہے۔ روز مرہ اشیائے صرف کی قیمتیں بھی مناسب ہیں۔ قارئین کی اطلاع کےلئے عرض ہے  کہ اس وقت نیویارک امریکہ میں فی گھنٹہ اجرت 15 ڈالر  جبکہ ایک سنگل بیڈ روم کا کرایہ 1500، 1600 سے کم نہیں۔ اس لحاظ سے اٹلی ایک بہتر انتخاب ہوسکتا ہے۔

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *