خودکشی کے حق میں ۔۔۔ یاسین نادر

 
زمان اور اس کے کچھ دوست، رات گئے ہزارہ قبرستان کے احاطے میں قبروں کی سلوں پر بیٹھے ہوئے تھے، لیکن محفل میں خلاف معمول ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اسی اثناء میں اچانک قبرستان کے مشرقی احاطے سے ایک لڑکا تیزی سے زمان اور اس کے دوستوں کے پاس آیا اور گھبرائے ہوے لہجے میں کہنے لگا۔
 
“اس جگہ جہاں سے میں آرہا ہوں، وہاں پھندے سے کسی لڑکے کی لاش لٹکی ہوئی ہے”
 
یہ سنتے ہی سب لڑکے یکدم سے اٹھے اور دوڑتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے۔
 
جائے وقوعہ پر پہنچے تو دیکھا کہ دو تنگ قبروں کے درمیان شہتوت کے درخت سے ایک سولہ یا سترہ سالہ لڑکے کی لاش رسی کے پھندے سے لٹکی ہوئی تھی۔ لڑکے کے جسم پر سفید لباس تھا، اس کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی تھیں اور گردن عام انسانی گردن سے دو گنا لمبی، جس سے زمان نے اندازہ لگایا کہ لاش کافی دیر سے یہاں لٹک رہی ہوگی۔
 
کسی بھی انسان کی موت آپ کے دماغ میں زندگی کے بارے میں گہرے سوالات کو جنم دیتی ہے۔ پھندے سے لٹکی نوجوان کی لاش دیکھ کر زمان اور اس کے دوست سکتے کی حالت میں کچھ دیر تک کھڑے رہے۔ یہ ایک ایسی غیر حقیقی صورتحال تھی جس پر یقین کرنے کو ان کا دل نہیں مان رہا تھا۔
 
کچھ حواس بجا ہوئے تو زمان کے دوستوں نے قریبی تھانے کو فون کیا۔ اطلاع ملنے کے کچھ ہی دیر بعد پولیس کی گاڑی ایمبولینس کے ساتھ اس جگہ پہنچی اور  موقع پر موجود لوگوں سے واقعے کی تفصیلات پوچھنے کا عمل شروع ہوا۔ اس دوران کچھ رسمی سی کاغذی کاروائی بھی ہوئی جس میں زمان اور ان کے دوستوں کے نام اور شناختی کارڈ نمبر درج کیے گئے۔ بعد میں لاش کو اتار کر ایمبولینس میں منتقل کردیا اور پولیس اہلکار چلے گئے۔
 
زمان اور اس کے دوست یہ سب واقع دیکھنے کے بعد واپس اپنی پرانی جگہ پر آئے اور اس بدقسمت لڑکےکی خودکشی کی ممکنہ وجوہات کے بارے میں آپس میں باتیں کرنے لگے کہ نجانے وہ کونسی ذہنی اذیت اور تکلیف ہوگی جس کی وجہ سے اس نے یہ فعل انجام دیا تھا، ورنہ خودکشی کرنے سے پہلے بنے بالوں اور نئۓ کپڑوں کے ساتھ خودکشی کون کرتا ہے۔ خیراس کے بعد یار دوستوں نے تو اپنی اپنی راہ لی لیکن زمان کو رات بھر خود کشی کرنے والے کا چہرہ ستاتا رہا۔ آخر وہ کانوں میں ہیڈ فون لگا کر میوزک سننے لگا جس سے اسے اک گونہ اطمینان ملا اور وہ میوزک کی آواز کے ساتھ ہی سو گیا۔
 
اگلی صبح زمان بیدار ہوا اور ناشتہ کرنے کے بعد چونکہ کرونا کی وباء کی وجہ سے دفتر نہیں جاسکتا تھا لہذا دفتری کام گھر میں ہی انجام دینے کے بعد اسے ای میل سے بھیج دیا۔ کام ختم کرنے کے بعد زمان ایک دوست کی دکان پر پہنچا تو دیکھا کہ وہاں باقی دوست کل کے واقعے کے بارے میں گفتگو کررہے تھے۔ ایک دوست کہنے لگا کہ خودکشی کرنے والے لڑکے کا نام الیاس تھا اور وہ ایک بیغیرت لڑکا تھا (کیونکہ ان کے بقول غیرت مند لوگ خود کشی نہیں کرتے) ، والدین سے اس بات پر لڑتا کہ اسے غیر قانونی طریقے سے یورپ بھیجیں، جس پر والد کے ہاتھوں اس کی خوب پٹائی ہوتی، شاید والد کے پاس پیسے نہ تھے کہ نو جوان بیٹے کی مدد کرتا،اس لیے سختی کرتا کہ وہ مزید نا فرمانی نہ کرے۔
 
خیر وجہ جو بھی ہو، تمام باتیں سننے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ الیاس نامی نوجوان والدین کے سخت رویے سے دلبرداشتہ ہوکر ڈپریشن میں مبتلا ہوگیا تھا اور یہی اس کی خود کشی کی وجہ ہوسکتی تھی۔ اس نے جو خواب دیکھے تھے وہ جب پورے نہیں ہوئے تو وہ ناامید ہوگیا تھا۔ بہر حال مسلہ اتنا سادہ بھی نہیں تھا کہ صرف چند دوستوں کی باتوں پر ہی زمان کوئی نتیجہ نکالتا۔ زمان نے یہ سوچ کر کوئی حتمی نتیجہ نکالنے سے گریز کیا کہ نہ وہ لڑکے کو قریب سے جانتا تھا اور نہ ہی ان کے والدین کے ساتھ زمان کی کوئی جان پہچان تھی۔
 
زمان دوست کی دکان سے نکل کر جب گھر کی طرف روانہ ہوا تو رستے میں اہک جنازہ امام بارہ گاہ سے نکل رہا تھا، پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ اسی لڑکے کا جنازہ ہے جس نے خود کشی کی تھی۔ وہاں بھی لوگ آپس میں یہی کہہ رہے تھے کہ لڑکا دنیا سے مرتد چلا گیا کیونکہ اسلام میں خودکشی حرام ہے۔ روایت کے مطابق زمان نے جنازے کو کاندھا دیا، اور کچھ قدم جنازے کے ساتھ چلتا رہا، جس کے بعد اس نے واپس گھر کی راہ لی۔
 
زمان گھر آیا تو اپنے کمرے میں اسی بات پر غور کرنے لگا کہ کیا خود کشی حرام اور ایک بیغرتی والا عمل ہے، ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ یہ خیال بھی آیا کہ خود کشی بغاوت اور تبدیلی کی طرف قدم بھی تو ہوسکتا ہے، کہ جو انسان صرف اس وجہ سے بیزاری کا شکار ہو جائے کہ وہ معاشرتی جبر کی وجہ سے اپنی مرضی کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتا اور وہ اس معاشرے کو تبدیل کرنے کا ہنر بھی نہ جانتا ہو، تو ایسے حالات میں خود کشی کرنے والا شخص خود کشی کو ہی راہ نجات سمجھتا ہے اور اسی پر عمل کرتا ہے، کم از کم وہ بے حس، بے غیرت، یا منافق تو نہیں ہو سکتا۔ یا پھر اگر انسان اس زندگی کو بے معنویت کی معراج کے طور پر جانے اور ہر انسانی عمل مضحکہ خیر دکھائی دے، تو کیا ایسے میں مصنوعی معانی تلاش کرنے کی بجائے اس بے معنی زندگی کو ختم کرنا ایک انسان کا ذاتی حق نہیں ہونا چاہیے؟
 
خیر وجودیت کا فلسفہ اور اس کی وجوہات چاہیں کچھ بھی ہوں۔ لیکن جن انسانوں کا پورا وجود ہی درد و غم پر محیط ہو، اور انہیں یہ درد یا ڈپریشن پیدائشی یا وراثتی طور پر ہی ملا ہو، تو نا امیدی کو گناہ کبیرہ کہنے والے لوگ اس وراثتی و پیدائشی گناہ کو کس کے سر ڈالنے کی کوشش کریں گے ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *