ہزارہ نسل کشی اور تاریخ کی درستگی ۔۔۔ طلا چنگیزی

*
(اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے درخواست ہے کہ وہ افغانستان میں (۱۸۸۸ ۔ ۹۰) کی دہائی میں ہزارہ نسل کشی یا جینوسائیڈ کو ایک انسانی المیے کے طور پر رسماً تسلیم/قبول کرے اور اسے اپنے آفیشل ریکارڈ کا حصہ بنائے)
 
افغانستان میں ماضی کے تمام ادوار میں ہزارہ قوم کی آبادی کو دانستہ طور پر کم ظاہر کرنا تقریباً ہر کابل حکومت کا خاصہ رہا ہے اور ہزارہ قوم کے حقوق اور انکے وسائل کی پامالی کے تسلسل میں یہ ایک تاریخی واقعہ فاجعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں آج تک مردم شماری کی ہی نہ گئی ہو وہاں ہزارہ قوم کو غیر معتبر ذرائع سے عددی اعتبار سے کم دکھانا ان پر ہونے والے تاریخی مظالم، نسل کشی اور ہزارہ جات کے قدرتی وسائل پر قبضے جیسے بے رحمانہ واقعات کے سلسلے کی ایک اور کڑی ہے جس سے مستقبل میں ہزارہ قوم کے لیے بڑے دور رس اور تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔
 
ہزارہ قوم کا اپنی تاریخ سے ایک منفرد اور مخصوص محبت و نفرت کا دیرینہ رشتہ رہا ہے۔ ایک طرف انہیں اپنے منگول نسل ہونے پر فخر اور غرور ہے تو دوسری جانب ۱۸۹۰ کی دہائی میں افغانستان کے امیر عبدالرحمان کے ہاتھوں شکست اور اسکے بعد پیش آنے والی طویل نسل کشی، غلامی، اور ظلم و بربریت پر اجتماعی طور پر ایک ملی احساس زیاں کا شکار بھی ہیں۔ صدی گزرنے کے باوجود یہ احساس زیاں ہر ہزارہ شخص کے لاشعور میں ماضی کے ایک انمٹ گھاؤ یا قومی اندوہ کی صورت، کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔
اتنی دہائیاں گزرنے کے باوجود، نہ تو وہ اس تکلیف دہ تاریخ کو اپنی اجتماعی یاداشت سے کھرچ کر پھینک سکے ہیں اور نہ ہی اس بھیانک ماضی سے جڑی قوتوں اور حالات نے انہیں بھلانے کا کوئی موقع فراہم کیا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں سے وہ قوتیں جو ہزارہ جات کی بربادی اور وسائل کی تاراجی میں ہر اول دستے کی مانند شریک تھیں وہ آج تک اس خطے کے باسیوں کے بنیاری حقوق سلب کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور جوابا وہ ہر بار ایک قدم پیچھے ہٹنے پرخود کو مجبور پاتے ہیں۔
 
۱۸۹۰ کی ہزارہ اپرایزنگ اور اسکے نتیجے میں ہونے والی ہزارہ نسل کشی، غلامی سے لیکر آج تک افغانستان، پاکستان اور ایران میں ہونے والے ظلم و بربریت کے نہ رکنے والے واقعات کا تسلسل ایک ہی ہے۔ اپ کوئی بھی نام دیں، وجوہات ایک ہی ہیں۔ اور وہ یہ کہ طاقتور کا کمزور کا استحصال کرکے اسکے مالی، قدرتی اور فکری وسائل پر بہ زور طاقت زبردستی قبضہ کرنے کی کوشش ہے۔ ہزارہ قوم کو اب تک یہ جان لینا چاہیے تھا کہ وسائل اور حقوق کو غصب کرنے کی جنگ میں ظالم اپنے اہداف کو پانے کے لیے اخلاقی طور پر کسی بھی حد تک گر سکتا ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو ہزارہ جات کے لوگوں کو ابھی تک تاریخ کے جبر سے سیکھنا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ نہ ہوسکا۔ پلوں کے نیچے بہت سا پانی وقت کی صورت گزرنے کے باوجود سیاسی، سماجی اور جغرافیائی طور پر ہزارہ قوم آج بھی وہی پر ہے جہاں تقریبا سو ڈیڑھ سو سال پہلے تھی۔ کیونکہ جو لوگ اپنی تاریخ بھلا دیتے ہیں انکا جغرافیہ انہیں فراموش کردیتا ہے۔ اپنے آج کو سنوارنے کے لیے ہمیں اپنے ماضی اور تاریخ میں حاصل کردہ کامیابیوں، کامرانیوں کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ یادوں جیسے محرومیوں، ناکامیوں، ذلتوں، اور توہین کو نہ صرف یاد رکھنا ہوگا بلکہ انہیں وقار کے ساتھ گلے لگانا ہوگا۔ جب تک ہزارہ قوم اپنی تاریخ کی شکنوں کو درست نہیں کرے گی، اس کا حال اور مستقبل کا سفر کبھی بھی ہموار نہیں ہوسکے گا۔ یہودیوں کی تاریخ ہمارے سامنے ایک مثال ہے۔ وقت حالات اور تاریخ نے ان کے ساتھ بھی انتہائ بھیانک کھیل کھیلا اور انہیں ملینوں جانوں کی قربانی دینا پڑی تھی۔ لیکن جنگ عظیم دوئم کے بعد انہوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور نسل کشی کو اتنے موثر انداز میں اجاگر کیا کہ آج پوری دنیا خصوصا مغربی ممالک میں ان پر ہونے والے مظالم کا انکاری مجرم تصور کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ انہوں نے دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ لڑ جھگڑ کر نہیں بلکہ تہذیب، شائستگی اور شاندار انداز میں پیش کر کے حاصل کیا۔ یہ واضح کرتا چلوں کہ میرے بیانیے کا موجودہ اسرائیلی حکومت اور اس کے کرتوتوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ کارنامہ بہت پہلے ان کے لکھاریوں اور دوسرے تخلیق کاروں نے اپنے فن پاروں کی شکل میں سر انجام دیا تھا۔
 
ہزارہ قوم بھی اپنے بھیانک ماضی سے ہم آہنگی حاصل کیے بنا اپنے حال اور مستقبل کو تابناک نہیں بنا سکتی۔ اس کے لیے میرا ایک ادنیٰ سا مشورہ ہے جس پر کامیابی اجتماعی طور پر عمل کر کے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور وہ گزارش یہ ہے کہ :
 
۱۔ ہزار قوم کو ایک مہم چلانی چاہیے جو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو قائل کرے کہ وہ بطور ایک ادارہ (۱۸۹۰) کی دہائ میں کی جانے والی ہزارہ نسل کشی یا جینو سائیڈ کو رسما تسلیم اور قبول کرے۔
اس سلسلے میں ہم یہ کرسکتے ہیں کہ ہر سال ایک خاص دن یا ہفتہ،۱۸۹۰ کی دہائی میں امیر عبدالرحمان کے ہاتھوں ہونے والی ہزارہ نسل کشی اور اس کے نتیجے میں ہزارہ سماج میں ہونے والی سیاسی، سماجی، جغرافیائی اور مالی شکست و ریخت کو پوری دنیا کے سامنے مختلف انداز اور طریقوں سے اجاگر کریں۔ اور پورے مہذب دنیا خصوصا ملل متحد سے مطالبہ کریں کہ اس مذکورہ دہائی میں ہونے والی ہزارہ جینوساییڈ کو افیشلی دنیا میں وقع پزیر ہونے والی چند بڑی اور بدقسمت جینوساییڈ کے طور پر رسمی طور پر قبول کر کے اسے اپنے ریکارڈ کا حصہ بنائے ۔ لیکن یاد دہانی کے لیے کہتا چلوں کہ ہمیں یہ فرق رکھنا ہوگا کہ یہ مہم کسی نسل یا فرقے کے خلاف نہیں بلکہ صرف اور صرف تاریخ کی درستگی کی ایک مخلصانہ کوشش ہونی چاہیے۔
 
۲۔ تمام دنیا خصوصا مغربی ممالک میں رہنے والے ہزارہ تارکین وطن اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو استعمال کر کے مثبت نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
 
اِس مذکورہ مہم سے یہ ہوگا کہ ہم پر ہونے والے ماضی کے مظالم اور نسل کشی کے حوالے سے پوری دنیامیں آگاہی اجاگر ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں افغانستان سمیت کسی بھی جگہ انسانی حقوق کی پامالی یا وسائل کی تقسیم میں کی جانے والی کسی بھی بد دیانتی کی صورت میں اس کی پہلے سے پیش بندی کی جا سکے گی۔ اس سیسٹمیٹک نسل کشی کے آگے بند باندھنےکے لئے ہمیں اس انسانی المیے کے آغاز سے آپنی جدوجہد کی شروعات کرنی ہوں گی تاکہ تاریخ کے اس تکلیف دہ سفر میں ہمیں آپنے ماضی کے دھندلے آئینے میں آپنا بہتر آج اور بہترین کل تلاش کرنے میں اسانی ہو۔
 
ہم اگر تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو جینوسائیڈ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تہذیب ۔ جدید انسانی تاریخ اور تہذیب کے ہاتھ بھی اسی انسانی خون میں رنگے ہیں۔ مختلف انسائیکلوپیڈیا اور دوسری تاریخی کتب میں کئی جینوسائیڈز کا ذکر ہے جیسے، ھالوکاسٹ، آرمینین، روانڈن، کمبوڈین اور سربین مسلم جینوسائیڈ وغیرہ جن میں سے بعض میں کئی ہزار لوگوں کا قتل عام ہوا تھا جن کی روئیداد تفصیل سے بیان کی گئی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے آپ کو کہیں کسی بھی تاریخی کتب اور بین الاقوامی ادبی حوالے سے ہزارہ جینوسائڈ کا کہیں بھولے سے بھی ذکر نہیں ملے گا۔ حالانکہ اس قتل عام میں لاکھوں معصوم لوگ نہ صرف اپنی جانوں سے گئے تھے بلکہ، اس کے بعد پوری ایک صدی تک تسلسل سے ان کا معاشی، سماجی، اخلاقی، سیاسی اور جسمانی قتل عامآج تک ہوتا رہا ہے۔  لیکن دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ایک صدی پہلے، جب اس المیے کی ابتدا ہوئی تھی تب سے لیکر آج تک، کسی ایک بھی علاقائی حکومت، ا س کے اہلکاروں یا اہم سیاسی و مذہبی شخصیات کی جانب سے مخلصانہ کوششیں تو کجا، کوئی مذمتی بیان تک جاری نہیں ہوسکا۔ گذشتہ ڈھائی صدی سے ہم ایک انسانی المیے سے دوسرے میں گرفتار چلے ارہے ہیں۔ ہر نئی افتاد پڑنے یا قتل عام کے آغاز پر ہم پرانے زخموں کو رستا چھوڑ کے ایک نئے گھاؤ کو رفو کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
 
ہزارہ قوم کو تاریخ اس غیر منصفانہ، غیر اخلاقی اور غیر انسانی جبر اور طرز عمل سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں اور مشترکہ ردعمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں دوبارہ ابتداء سے اپنی شروعات کرنی ہوں گی۔ اس وقت سے جب پہلی دفعہ اس انسانی المیے کی بنیاد پڑی تھی۔ یہ راستہ کافی کھٹن ہے لیکن یقین کامل ہے کہ اگر ہم ۱۸۸۸ سے لیکر ۱۸۹۳ تک کی پہلی ہزارہ جینوساییڈ کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے رکھ کر داد رسی کریں کہ وہ باضابطہ طور پر اسے تسلیم کرکے اپنے ریکارڈ اور تاریخ کی تدریسی کتابوں کا حصہ بنائیں تو یہ نہ صرف تاریخی حقائق کی درستگی کی جانب ایک قدم کے طور پر شمار ہوگا بلکہ ان لاکھوں انسانوں کی قربانی بھی رائیگاں نہیں جائے گی جنہوں نے سوا صدی پہلے اپنی عزت، ناموس اور وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔
جاوید نادری

One thought on “ہزارہ نسل کشی اور تاریخ کی درستگی ۔۔۔ طلا چنگیزی

  1. السلام و علیکم میرے عزیز دوست آپ کے اس تحریر پر میرا یہ خیال ہے کہ ہم علمی سامراج سے کیسے یہ مطالبہ کر سکتے ہے کہ ہماری نسل کوشی کو رسمی طور پر مانا جائے۔ کیا اس سے ہماری درد کا مداوا ہو سکتا ہے؟ میں آپ کے تمام باتوں سے متفق ہوں لیکن یہ کہ اقوام متحدہ کو ہماری نسل کوشی کو اپنے ہسٹری بوک میں درج کرنے کا واویلہ یہ ایک جھوٹ ہے یہ ایک خود فریبی ہے۔ آپ ایسے کام کے بارے میں کیوں بات نہی۔ کرتے جو موثر اور کار آمد ہو۔ مثلاً نوجوانوں کو سیاسی تربیت ایک منظم نظریہ کے تحت جہد مسلسل نو جوانوں کو شعور دینا تاکہ وہ اپنے سر زمین ہزارہجات کے لیے خود بندوک اٹھائے۔ قومی بیانیہ کی ضرورت ہے دنیا کے ہر کونے میں جتنے بھی ہزارہ قوم پھیلے ہوے ہے انکو شعور دینا ہوگا دنیا میں جتنے بھی ہمارے سیاسی تنظیم ہے انکو ایک بات پر آمادہ کرنا ہوگا۔ آزادی ہزارستان کے لیے ایک نظریاتی فکر کی ضرورت ہے۔ جو اپنے نظریات کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہو دنیا کے کسی بھی قوم کو کسی دوسرے قوم نے آزادی نہیں دلوائی ہے۔ یہ بات بہتر جانتے ہے۔ شکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *