ماحولیات اور انسانی نفسیات ۔۔۔ علی رضا منگول

 
انسان ہمیشہ اپنے ماحول سے متاثر ہو کر کچھ بھی بن جاتا ہے یا نفسیات اختیار کرلیتا ہے جو تقریباً مکمل طور پر بے اختیاری میں یعنی جبری طور پر ان اثرات سے تبدیل و ترتیب پالیتا ہے۔ جسے شعوری طور پر بدلنا بے انتہا مشکل اور اکثر ناممکن ہوتا ہے۔ ساری حیاتی مجبور محض زندگی گزارنے کے باوجود انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ تمام افعال خود سرانجام دے رہا ہے جبکہ ایسا وہ صرف سوچ سکتا ہے مگر حقیقت میں نہیں۔ اس مجبور محض کی مذہبی نفسیات سے کوئی پیوستگی نہیں بلکہ سائنسی بنیادوں پر نتیجہ گیری کا حاصل ہے۔
 
ایک بات طے ہے کہ اگر کسی کی ذہنیت یا سوچ بدلنی ہو تو اس کے Environment کو تبدیل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ ماحولیات، خیالات کا خالق ہوتا ہے اور جب سوچ بدل جاتی ہے تو Approach بدلتا ہے اور پھر عمل کا بدل جانا یقینی ہوجاتا ہے۔ مگر اس ماحول یا Environment کو آب و ہوا نہ سمجھا جائے بلکہ اس کا مطب و معنی معیار میں ذرا مختلف ہے۔ کیونکہ یہ ماحول کا ہمہ جہت اور کُلی طور پر احاطہ کرتی ہے یعنی Social Environment, Natural Environment, Cultural Environment, Economical and Political Environment پر محیط ہے جس کے اثرات سے انسانی شخصیت کی تشکیل و تعمیر ہوتی ہے۔ ان اثرات میں من مرضی مداخلت کا واحد راستہ کتاب خوانی کا مسلسل عمل و عادت ہے جو انسان کے شعور میں اضافہ کا باعث بنتی ہے اور انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ اکثر اپنی شعوری مداخلت سے اپنی زندگی پر ماحول کی جبری تاثیر کو سمجھتے ہوئے اسے اپنے مفاد میں استعمال کرسکے۔
 
موجودہ عالمی وبائی ماحولیات نے بہت حد تک انسانی ذہن کو جھنجوڑ کر اسے تبدیل کرنے میں کردار ادا کردیا ہے۔ مگر چونکہ نفسیات بہت زیادہ لمبے عرصے میں انسان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے اس لئے اس سے جان چھڑانا کتاب خوانی کے ذریعے اپنے تجربات میں اضافہ کے بغیر قریب قریب ناممکن عمل ہے۔ ان حالات یا صورتحال میں عقل کے قفل کھولنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ تازہ خیالات کا جھونکا انسانی سوچ و ایپروچ کو تازگی سے ہمکنار کرسکے۔
 
ماسک اور سماجی فاصلہ بے حد ضروری ہو گیا ہے اور اس عمل کو ہمیں اب کم از کم سال دو سال تک  جاری رکھنا چاہیے۔ کورونا کے مریضوں سے جو صحتیاب ہوئے ہیں آپ پوچھ گچھ کرسکتے ہیں کہ وہ کس کرب اور اذیت سے گزرے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کل جس تیزی کے ساتھ اموات میں اضافہ ہوا ہے یہ قطعی معمول کے حالات نہیں ہیں جسے ہماری پسماندہ نفسیات سمجھنے سے قاصر ہی نہیں بلکہ بے نیازبھی ہے۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ماحول کے ساتھ ہمکاری کرتے ہوئے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرکے اپنی اور دیگر لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کریں۔
علی رضا منگول
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *