حق تلفی ۔۔۔ زہرا علی

 

آج آٹھ مارچ ہے۔  خواتین کا  عالمی دن۔  موقع کی مناسبت سے ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں  ناجیہ سے ملاقات ہوئی۔ ناجیہ اور میں  نے چھ سال پہلے  کالج میں داخلہ لیا تھا لیکن کالج کے دوسرے ہفتے ہی  کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر  اس نے کالج آنا بند کر دیا اور ہمارا رابطہ بھی منقطع ہو گیا۔ تقریب میں شرکت کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ ہماری  اپنی کمیونٹی  نے یہ تقریب منعقد کی تھی جو اس سے پہلے کئی سالوں سے عید،  نئے سال  اور  دیگرکلچرل تقریبات  منعقد کرتی آ رہی تھی۔   خواتین کے  عالمی دن کی  مناسبت سے اس تقریب  کا انعقاد میرے لیے خوش آئند بات تھی۔ سٹیج پر  کئی ساری خواتین اور مردوں نے باری باری اس دن کی مناسبت سے اس کی اہمیت اور  معاشرے میں  خواتین کے کردار پر اچھی اچھی تقاریر کیں اور اشعار سنائے۔

تقریباً دو گھنٹے کی تقریب اختتام پذیر ہوئی تو میں اور ناجیہ  ایک نزد یکی کافی شاپ میں گئے۔ ایک عرصے بعد ملے تھے اس لئے خوب باتیں ہوئیں۔  باتوں ہی باتوں میں ایک دم ناجیہ نے  انگلی میں پہنی سونے  کی ایک خوبصورت انگوٹھی  دکھاتے ہوئے کہا،’’یہ مجھے آج  میرے شوہر نے دی ہے، کیسی لگی؟‘‘

’’یہ تو بہت پیاری ہے، کیا آج کوئی خاص دن ہے۔ میرا مطلب ہے کہ کیا آج تمہاری سالگرہ ہے، شادی کی سالگرہ یا کوئی اور خاص دن؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’کیا مطلب  خاص دن؟ آج  خواتین کا  عالمی دن ہے بھئی۔ آج کے دن   ایک تحفہ تو ملنا ہی چاہیے نا، تمہیں نہیں ملا کیا؟‘‘

’’نہیں تو‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’یہ تو سراسر حق تلفی ہے بھئی، خواتین کا ایک ہی تو دن ہوتا ہے، اس دن کا تحفہ بنتا ہی ہےنا۔‘‘

میں خاموشی سے اس کی بات سن رہی تھی ،میری خاموشی  کو دیکھتے ہوئے اس نے بات کا رخ موڑا، ’’ اچھا  دفع کرو تحفے کو، تم یہ بتاو، تمہاری پڑھائی کیسی جا رہی ہے اور آگے کا کیا ارادہ ہے؟‘‘

’’ پڑھائی اچھی جا رہی ہے،  فی الحال تو یونیورسٹی میں آخری سیمسٹر چل رہا ہے۔ آگے جاب  کروں گی۔  بس! ابھی تو یہاں تک کا سوچا ہے۔ لیکن تم نے تو کالج   کے پہلے مہینے میں ہی پڑھائی چھوڑ دی۔ کیوں، تمہیں تو  آگے پڑھنے کا بہت شوق تھا ؟ ‘‘   میں نے پوچھا۔

’’ بس کیا کہوں یار، میرے شوہر نے اجازت نہیں دی۔ ‘‘ ناجیہ نے جواب دیا۔

زہرا علی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *