*
ریاست مدینہ کے دعویدار اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ ریاست مدینہ کے دعوے توکیے جاتے ہیں۔ لیکن آپ کو سوچنا ہوگا اور سمجھنا بھی ہوگا۔کہ ریاست مدینہ کے خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ کا شمار علاقہ کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھاآپ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ جوکہ خلافت کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد بند کرنا پڑا کیونکہ تجارت اور عوام کے مسائل ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔ جب منصب خلافت سنبھالا تو آپ کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔بیعت خلافت کے دوسرے دن کا واقعہ ہے کہ آپؓ کچھ چاد ریں لے کر بازار جارہے تھے۔حضرت سیدناعمرفاروقؓ نے دریافت کیا کہ آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں تو آپ نے فرمایا تجارت کرنے کے لیے حضرت سیدناعمرفاروق ؓ نے عرض کیا کہ اب آپ خلیفہ وقت ہیں اگر آپ کاروبار کریں گے توریاست کے معاملات کون دیکھے گا۔ آپ فوراً مان گئے اور واپس آگئے۔مگر اب سوال یہ پیدا ہوا کہ ان کے گھر کا گزر بسر کیسے ہو گا تو اس وقت کی شوریٰ بیٹھی اور طے ہوا کہ خلیفہ وقت کی تنخواہ بیت المال سے وقف کردی جائے تاکہ خلیفہ وقت باخوبی ریاست مدینہ کے معاملات دیکھے۔ مگر سوال کیا گیا کہ آپ کی تنخواہ کتنی مقرر کی جائے۔ جس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓنے خودفرمایا کہ ریاست مدینہ کے مزدور جتنی،اتنی ہی میرے لئے مقرر کی جائے صحابہ اکرم بولے آپ اس میں گزارہ کیسے کریں گے! تو آپ نے فرمایا جس طرح مزدور گزارہ کرتا ہے میں بھی ویسے ہی گزارہ کرو ں گا۔ہاں البتہ اگر گزارہ نہ ہو سکا تو میں مزدور کی اجرت بڑھا دوں گا۔
یہاں پر یہ واقعہ بھی تحریر کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ اسی وظیفے میں سے کچھ بچا کر جب اہلیہ محترم نے حلوہ بنایا تو آپ نے اتنی مقدار وظیفے میں سے کم کروادی یہ کہہ کر کہ یہ ہماری ضرورت سے زاید ہے ۔ یہ فیصلہ اس حکمران کا تھا جو حکمرانی کے لئے خلیفہ نہیں بنا تھا بلکہ خدمت خلق کے لئے اس فرض شناسی کو قبول کیا تھا۔اور وہ بھی سب ساتھیوں کے اصرار پر۔ اب آتے ہیں جناب میر ریاست پاکستان اور ان کے نام نہاد وزراء،اور عزت مآب سیاسی راہنماؤں کی طرف جن کے پاس عوام کو دینے کے لیے تاحال طفل تسلیاں،وعدے وعید،محض دعوے اور چند کھوکھلے نعروں کے سواکچھ نہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے انکشاف کیا کہ مہنگائی ہے اور میرا اپنی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ میں اپ کو یاد بھی کرواتا چلوں کہ خان صاحب ریاست مدینہ کے دعوے دار بھی ہیں۔جن کا بھاری تنخواہ کے علاوہ مراعات اور صوابدیدی اختیارات کے باوجود گزارہ نہیں ہوتا ۔عوام کو مشکل وقت میں صبر کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور خود متعدد بار مہنگائی ہے، تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا کا شکوہ کرتے دیکھائی دیتے ہیں اور ساتھ ہی عوام کوگھبرانا نہیں کا درس بھی دیتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے ریاست مدینہ اور تبدیلی کے نعرے پر انتخابات میں حصہ لیا عوام سے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنائیں گے۔لیکن پہلی اسلامی سلطنت مدینہ کا پہلا فلسفہ یہ ہے کہ حکمراں اپنی تنخواہ ایک مزدور کی تنخواہ کے برابر رکھتے تھے لیکن وزیراعظم پاکستان کی تنخواہ میں ایڈہاک الاؤنسز وغیرہ شامل کرکے 201,574روپے بن جاتی ہے اور اس میں 4595روپے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے باقی تنخواہ 196,979وصول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر، گاڑی کا خرچہ، ٹیلی فون،موبائل فون کا بل یہ سب سرکاری خزانے سے ادا کیے جاتے ہیں۔ وزیراعظم کاگریڈپے سلپ پر23 لکھا گیاہے. 22 گریڈکا وفاقی سیکرٹری ہوتا ہے اور اس سے اوپر کا گریڈ وزیراعظم کو دیا گیا ہے لیکن پھر بھی ان کا گزارہ نہیں ہو رہا تو عام آدمی کا کیاہوتا ہو گا۔ اس وقت ایک مزدور کی ماہانہ اجرت حکومت کی جانب سے 17500 روپے مقرر کی گئی ہے جب کہ مہنگائی کے تناسب سے اگر اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو میاں،بیوی اور چار بچوں سمیت یعنی کل6 افراد کاماہانہ نارمل خرچہ۔ ایک لیٹر دودھ کی قیمت 100روپے اور30 دن کادودھ 3000روپے کا۔ آٹے کی قیمت فی کلو 70روپے روزانہ3 کلو اور30دن کا90کلو قیمت 6300سو۔سبزی دال وغیرہ ڈیلی 200روپے کی اور 30دن کی سبزی6000روپے کی۔چینی،پتی، مصالحہ وغیرہ ایک دن کا 100روپے کااور 30دن کا3000روپے کا۔چاول فی کلو140روپے ہفتہ میں دو دن کے 4کلو اور 4ہفتوں کے 8کلو قیمت 1120 روپے۔گھی،تیل فی کلو 210 روپے ہفتے میں 2کلواور 4 ہفتوں میں 8کلوقیمت 1680روپے۔بچوں کے دن بھر کا خرچہ 20 روپے فی بچہ اور4 بچوں کا 80 روپے ڈیلی،30 دن کاخرچہ 2400 روپے۔ سکول فیس فی بچہ 1000روپے اور 4 بچوں کی فیس4000 روپے۔بجلی کا بل 1500 روپے۔ گیس کا بل 500 روپے۔ ڈاکٹروغیر کے پاس بیماری کی صورت میں ماہانہ 1000 روپے, مہمان وغیرہ ماہانہ 1000روپے, ڈیوٹی پر آنے جانے کا کرایہ 100روپے روزانہ اور 30 دن کا 3000 روپے ٹوٹل خرچے کی رقم 34500 روپے آمدنی 17500 روپے 34500-17500 = 17000 روپے ماہانہ.
مزدور خسارے میں ہے یعنی 566 روپے روزانہ کی بنیادوں پر مزدور کو خسارہ ہوتا ہے اوریہ وہ کیسے پورا کرتا ہے، یہ بات وہ مزدور جانتا ہے یا اللہ کی پاک ذات۔اور خود ریاست مدینہ کے دعوے داروں کو،سیلریز،الاؤنسز،اور پریولیجزکے نام پر سرکاری گھر جس کے تمام تر اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں اور دو سرکاری گاڑیاں دی جاتی ہیں جن میں سے ایک کے استعمال کی کوئی حد نہیں اور دوسری گاڑی کا ماہانہ 250 لیٹر کا ایندھن دیا جاتا ہے ۔ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ہزاروں کی مد میں ڈیلی الاؤنسز، سفری خرچہ اور اس کے علاوہ سالانہ اضافی خرچے بھی دیئے جاتے ہیں۔ میر ریاست ماضی میں اخراجات کم کرنے، کفایت شعاری کر یں گے، کراچی کے ساحلوں کو سیاحتی مراکز میں تبدیل اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کر یں گے۔منی لارنڈنگ، بد عنوانی، غیر قانونی طریقوں کے ساتھ رقم ملک سے باہر لے جانے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔جیلوں میں غریب قیدیوں کے پاس وکیلوں کو بھیجیں گے۔ 50 لاکھ گھراور ایک کروڑ نوکریاں دیں گے، قانون، پولیس نظام میں،اور ہیلتھ میں اصلاحات لے کر آئیں گے ۔ چھوٹی صنعتوں،کسانوں،اور نوجوانوں کو آسان اور سستے قرضے فراہم کریں گے ۔ پی آئی اے، پاکستان ریلوئے اورسٹیل ملز کا خسارہ کم کر کے منافع بخش بنائیں گے، نیا پاکستان بنائیں گے جس میں امیر غریب کے لیے ایک ہی جیسا قانون ہو گا کے دعوئے تو بہت کرتے رہیں لیکن اقتدار میں آکر اپنے ہی دعوؤں پر عمل درآمد نہ کر سکے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چندباتوں، کھوکھلے، دعوؤں اور چند طفل تسلیوں سے بنے گی ریاست مدینہ!؟ ان کا بیانیہ، مؤقف،نعرے،تقریریں،تدابیر،خیالات،پلان جو بھی ہولیکن عملی طور پر کچھ نہ کر سکے۔ ریاست مدینہ کے خلیفہ کی تنخواہ ایک مزدور کی اجرت کے برابر تھی۔جنہوں نے ریاست مدینہ کے لئے اپنا کاروبار ترک کردیا تھا۔ وہاں امیر غریب کے لیے انصاف کا ایک ہی معیار تھا۔میر ریاست سیدنا عمرفاروق ؓفرماتے تھے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر اس کا ذمہ دار ہو گا اور یہاں غریب بھوک و افلاس سے مر رہے ہیں ریاست مدینہ کے یہ دعوے داراپنی غلطیاں ماننے کو تیار ہی نہیں اوراپنی ناکامی کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر گراتے ہیں۔ انصاف کا یہاں دوہرامعیار ہے۔ لوگ بے روزگاری اور غربت سے خود کشی کر رہے ہیں۔ مہنگائی نے کمر توڑ کے رکھی دی ہے،آٹا،چینی ناپید ہوگیا ہے، خورو نوش کی اشیاء جن قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ فروٹ،سبزیاں،دالیں تو عوام کو منہ چڑھا رہی ہیں۔بجلی گیس،پٹرول نے تو عوام کی چیخیں نکلوادی ہیں ۔ انصاف ملنے کے بارے سوچا جا سکتا ہے لیکن مل نہیں سکتا۔ پولیس محکمہ اپنے آپ کو عوام کا خادم ماننے کو تیار ہی نہیں۔ حکومتی وزراء ہیں کہ ان سے کارکردگی کے بارے میں جب سوال کیا جائے تو مزید سال کا پلان سنا دیتے ہیں۔ تاحال ایسے لگتا ہے جیسے حکومت کے پاس عوام اور ملک پاکستان کی بہتری کے لئے کوئی بھی حکمت عملی ہی نہیں ہے۔
ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے ایسے کیسے بنے گی ریاست مدینہ۔اس بات پر غور ضرور کیجئے گا کہ سلطان صلاح الدن ایوبی فاتح بیت المقدس، مصر، اردن، لبنان، فلسطین، شام کا جب انتقال ہوا تو ان کے کفن کے لیے قرض حاصل کر کے ان کی تدفین کا انتظام کیا گیا۔ان کی وفات کے بعد ذاتی ملکیت کا حساب کیا گیا تو ایک گھوڑا،ایک تلوار،ایک زرہ،ایک دینار اور چھتیسں درہم کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ آپ شدید خواہش کے باوجود حج نہ کر سکے کیونکہ حج کے لیے رقم نہ تھی۔ایسے آتی ہے تبدیلی اور ایسے ہی حکمرانوں کی حکمرانی سے بنتی ہیں طرز ریاست مدینہ۔