شہید چیئرمین کی 11ویں برسی کے موقع پر مشیر کھیل و ثقافت خالق ہزارہ کی تقریر میں چند باتوں کے علاوہ دیگر باتیں نہ تو متاثر کن تھیں نہ ہی ان کی تقریر میں کوئی واضح پروگرام تھا۔ بیشتر الفاظ وہی تھے جنہیں ہم ہر جلسوں اور تقاریب میں سنتے آرہے ہیں۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ گیس، پانی اور بجلی ملکی سطح کے مسائل ہیں۔ ان کو دور کرنا ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
میں ان سے متفق ہوں کہ ہمارے حلقہ کو مذید سرکاری سکول کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ پہلے تو سکول کے لیے جگہ ملنا مشکل ہے، دوسرا جس اسکول میں پہلے ایک ہزار طالب علم پڑھنے جاتے تھے اب وہاں صرف دو سے تین سو تک طالب علم درس حاصل کر رہے ہیں۔ اس وقت جو تعلیمی ادارے ہیں وہ کافی ہیں لیکن تعلیمی اداروں میں رزلٹ مایوس کن ہے۔ اسی طرح انہوں نے علاقے میں سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں اور گراونڈز کو بھی غیر معیاری قرار دیا جو کہ درست بات ہے۔
لیکن تعلیم صحت اور کھیل کے شعبوں میں کوالٹی لانے اور انہیں معیاری بنانے کے لئے ان کے پاس کیا تجاویز ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے کیا اقدامات کئے ہیں، انہوں نے ان کا ذکر نہیں کیا!
نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں دینے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں۔ آنے والے الیکشن میں بے روزگاری ان کے لئے سوالیہ نشان ہوگی۔ علاوہ ازیں لائبریری، موسمیاتی تبدیلی، پانی کے ضیاع، پارک، صفائی اور آلودگی جیسے درجنوں مسائل اور لڑکیوں کو لڑکوں کے برابر لانے کے لئے ان کے پاس کیا پروگرام ہے، اس بارے بھی انہوں نے کچھ نہیں کہا۔
انٹرنیشنل سیاست کے حوالے سے بھی انہوں نے لب کشائی نہیں کی، حالانکہ وقتا فوقتا انہیں سوشل میڈیا پر بھی active ہونا چاہئے۔ لیکن انہوں نے سوشل میڈیا سے دوری اختیار کر رکھی ہے۔ اب عوام براہ راست اپنا پیغام کس طرح انہیں پہنچائیں اس بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔
ان کی تقریر میں ایک اچھی بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنے مخالفین کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔
احمد علی کہزاد کی تقریر سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ تیاری کر کے آئے تھے اور پارٹی کو منظم کرنے کے لئے ان کے ذہن میں جو پروگرام تھا وہ ان کے آئندہ سیاسی عمل اور نئے بلدیاتی انتخابات میں بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔
انہوں نے شہید چیئرمین کے vision کو اپنانے کا عہد کیا تاکہ اجتماعی مقاصد تک پہنچ سکیں۔ انہوں نے ترقیاتی کاموں کو پارٹی کا ہدف قرار نہیں دیا بلکہ institution کو مضبوط کرنے پر زور دیا تاکہ نئی نسل ایک منظم پروگرام کے تحت زندگی گزار سکے۔ انہوں نے اپنے ناقدین کی تنقید کو ویلکم کرتے ہوئے کہا کہ ان تنقیدوں کے باعث ہم مذید active ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کو بلوچستان اور پاکستان کی سیاست کے دھارے میں لانے اور پارٹی کو ہر لمحے عوام کے ساتھ وابستہ رکھنے کا یقین دلایا۔
ایم پی اے قادر نائل کی تقریر ان کی شخصیت کی طرح سنجیدہ تھی۔ ہزارہ ٹاون کے ایک عام گھرانے سے تعلق رکھنے والے قادر نائل نے اگر اس حلقے کے لئے خدمت نہیں کی تو کوئی اور اس علاقے کی پسماندگی اور غریبوں کے درد کا ادراک نہیں کر سکے گا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں زیادہ تر شہید چیئرمین کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ سیاست، سیاسی شناخت اور اسمبلی میں ہزارہ ٹاون کی نمائندگی شہید چیئرمین کا خواب تھا جو پورا ہوا۔ یہ سن کر میں افسردہ ہوا۔ افسوس کہ وہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں۔
مقررین نے جلسے کی مناسبت سے جو تقاریر کیں انہیں مثبت قرار دیا جاسکتا ہے۔
Latest posts by لیاقت علی (see all)
- ان کے بھی سینے میں دل ہے ۔۔۔ لیاقت علی - 16/10/2020
- نہ تقریر متاثر کن تھی نہ کوئی واضح پروگرام تھا۔۔۔ لیاقت علی - 31/01/2020
- خالق ہزارہ کا عوام سے صلاح مشورہ ۔۔۔ لیاقت علی - 29/01/2020