ان کے بھی سینے میں دل ہے ۔۔۔ لیاقت علی

پچھلے دنوں میں میلبورن کے مقامی ہسپتال میں ناسازی طبیعت کی بنا پر داخل تھا۔ میرے سامنے والے بیڈ پر ایک معذور خاتون مریضہ تھی جس کے ہاتھ اور پیر مفلوج تھے۔ حتا کہ وہ سر ہلا کر اشارہ بھی نہیں کر پاتی تھی۔ میں اسے دو دنوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی طبیعت مسلسل ناساز تھی اور چہرے پر افسردگی طاری تھی۔ میں نے اسے ایک پل کے لئے بھی خوش ہوتے اور ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کے سارے کام نرس کرتی تھی۔ یہاں نرسیں بھی ماں بہن سے کم خدمت نہیں کرتیں۔ نرس اس مریضہ کے بوقت ضروت پیمپر تبدیل کرتی، صفائی کرتی، اسے نہلاتی اور رات کو پاؤں میں سردی سے بچنے کے لئے جرابیں بھی پہناتی تھی۔
اتوار کے دن نرس نے اسے خوشخبری سنائی کہ آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔ دیکھا کہ ایک معذور شخص ایک خود کار ویل چئیر پر آیا ہے۔ اس کے بھی ہاتھ پیر کام نہیں کرتے تھے اور وہ صرف اپنے سر کو معمولی سا دونوں جانب ہلانے پر قادر تھے۔ مگر اس کی ویل چئیر کو کچھ اس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ وہ اس کے جسم کے کسی خاص حصہ کے اشارے پر آگے ییچھے حرکت کرتی تھی۔ وہ بات نہیں کر سکتا تھا لیکن ویل چیئر کے سامنے موبائل اور مائیکروفون موجود تھے۔ یقینا ان کے بھی استعمال کا کوئی ذریعہ موجود ہوگا۔
جونہی خاتون نے اس کی آواز سنی اس کے لبوں پہ مسکراہٹ اور چہرے پہ رونق آگئی۔ یہ شخص صرف غوں غاں اور اخ او جیسی آوازیں ہی نکال سکتا تھا، مگر اس عورت کا اس کی انہی آوازوں پر ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔ ناجانے دونوں کس طرح ایک دوسرے کی باتوں کو سمجھ رہے تھے۔۔ اللہ جانے!
اس کے جانے کے بعد میرے دل سے بس ایک ہی دعا نکلی کہ کاش کوئی معذور پیدا نہ ہو! خصوصاََ افغانستان، پاکستان اور کوئٹہ میں۔ جہاں پہلے تو اس طرح کے معذور افراد کا علاج مشکل ہے پھر کجا یہ کہ کوئی اس بات کا پتہ لگا پائے کہ انہیں تکلیف کیا ہے؟ اور یہ تو بہت دور کی بات ہے کہ انہیں خوش رکھنے کے لئے کیا کیا کرنا چاہیے اور ان کے چلنے پھرنے کے لئے بھی کوئی مشین ہونی چاہئے۔ میرا تو دھیان کھبی اس طرف گیا ہی نہیں تھا کہ معذوروں کا بھی دل ہوتا ہے۔ انہیں بھی خوش رکھنا چاہیے۔ میں تو ہمیشہ یہی دیکھتا اور سمجھتا رہا کہ کھلا پلا کر انہیں تمام دن سونے کے لیے کہا جاتا ہے اور وہ سو بھی جاتے ہیں۔ اور میں یہی سمجھتا تھا کہ انہیں ہماری طرح درد کا بھی احساس نہیں ہوتا۔ میں تو معذوروں کو گھر کے ایک کونے میں پڑی فریج جیسی کوئی چیز سمجھتا تھا۔
میں غلط تھا اور مجھے ہمیشہ اس بات پر شرمندگی رہے گی۔
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *