سمر سسٹرز سکالر شپ اور میرا سفر امریکہ ۔۔۔ شمامہ حسن

پہلا حصہ

یہ نومبر 2018 کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب ایک دن ابو نے مجھے فیس بک پر شیئر ہونے والی ایک پوسٹ دکھائی جو ایک ایسی امریکی سکالر شپ سے متعلق تھی جس کا دورانیہ محض دو ہفتوں پر مشتمل تھا۔ اس سکالر شپ کا نام یو ایس سمر سسٹرز سٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام تھا جسے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی معاونت حاصل تھی۔ ابتدائی معلومات حاصل کرنے کے بعد میں نے مذکورہ اسکالرشپ کے لیے آن لائن درخواست دے دی۔ کچھ دنوں بعد مجھے اطلاع ملی کہ ابتدائی مرحلے میں میرا نام شارٹ لسٹ ہو چکا ہے لیکن باقاعدہ انٹرویو کے بعد ہی کچھ کہا جاسکے گا۔ انٹرویو سکائپ کے ذریعے ہونا تھا جس کا مجھے بالکل بھی تجربہ نہ تھا۔ کسی طرح اسکائپ ایپ ڈاؤنلوڈ کرنے اور سکائپ آئی ڈی بنانے کے بعد مقررہ تاریخ کو انٹرویو کا مرحلہ بھی طے ہوگیا ۔ اس دوران مجھے ای میل آئی ڈی بنانے کی تاکید کی گئی تاکہ مجھے اپ ڈیٹ رکھا جاسکے۔ کچھ دنوں بعد نہ صرف اسی ای میل کے توسط سے بلکہ ابو کے فون پر بھی مجھے اس بات کی خوشخبری دی گئی کہ میں نے اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔ میں بہت خوش تھی۔ اب مجھے فیس بک اکاونٹ بنانے کا بھی مشورہ دیا گیا تاکہ گروپ میں رہ کر میں سکالرشپ سے متعلق اپ ڈیٹس سے باخبر رہ سکوں۔ اس دوران پروگرام کے منتظمین سے مختلف معلومات کا تبادلہ ہوتا رہا۔ مجھ سے متعلقہ ضروری دستاویزات مانگی گئیں اور صحت سے متعلق رپورٹس کا بھی تقاضا کیا گیا۔ ان تمام مراحل کی تکمیل میں دو مہینے گزر گئے جس کے بعد مجھے تفصیلی انٹرویو کے لیے کراچی بلایا گیا۔ اس سے قبل چونکہ میری بڑی بہن نے بھی YES نامی ایک سٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام کے تحت ایک سال امریکہ میں رہ کر تعلیم حاصل کی تھی لہٰذا وہ بھی برابر میری رہنمائی کرتی رہی۔
وہ جنوری 2019 کا مہینہ تھا جب میں اپنی امی، ابو اور چھوٹے بھائی کے ساتھ ٹرین کے ذریعے کراچی پہنچی جہاں میرے بڑے بھائی راحیل پہلے سے مقیم تھے۔ ان کا قیام اقرا یونیورسٹی کے قریب ہی تھا جہاں وہ بی بی اے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ہماری رہائش کے لیے انہوں نے ایک ایسا فلیٹ خالی کروا رکھا تھا جسے ان کے کچھ دوست بطور ہاسٹل استعمال کرتے تھے۔ انٹرویو کی جگہ کے بارے میں ہمیں پہلے ہی مکمل معلومات فراہم کردی گئی تھیں اس لیے دو دن بعد جب میں بھائی کے ساتھ انٹرویو کے لیے روانہ ہوئی تو اوبر والے کو جگہ ڈھونڈنے میں ذرہ برابر بھی دقت پیش نہیں آئی۔
انٹر ویوز کا مرحلہ آنے سے پہلے تمام لڑکیوں سے تین مرحلوں میں انگلش زبان کا ٹیسٹ لیا گیا جس میں Writing, Reading اور Listening کے ٹیسٹس شامل تھے۔ ٹیسٹس کا یہ مرحلہ جو ELTIS یعنی English Language Test for International Students کے معیار کے مطابق لیے گئے، ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھا۔ اس کے بعد گروپ ایکٹیویٹی کا مرحلہ آیا جو تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ آخری مرحلہ انٹرویو کا تھا۔ مجھ سے تقریباً آدھے گھنٹے تک مختلف سوالات پوچھے گیے جن میں یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر میں اس سکالر شپ کے حصول میں کامیاب ہوجاتی ہوں تو کیا امریکہ کے سفر پر میرے والدین کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا!؟ لیکن جب میں نے انہیں بتایا کہ میں والدین کے ساتھ ہی کوئٹہ سے آئی ہوں اور مجھے ان کی مکمل سپورٹ حاصل ہے تو انہیں حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی۔ اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ مذکورہ سکالر شپ کے لیے پاکستان بھر سے سینکڑوں لڑکیوں نے درخواستیں دی تھیں لیکن ان میں سے صرف دو سو لڑکیوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ میرے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ ان دو سو لڑکیوں میں میں واحد لڑکی تھی جس کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ یہ بات شاید خود منتظمین کے لیے بھی حیرت کا باعث تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی وجہ کیا تھی۔ شاید بلوچستان کے طالب علموں خصوصاً طالبات کو ایسی سکالر شپس کے بارے میں کم ہی اطلاع مل پاتی ہے یا پھر انہیں خاندان کی طرف سے سپورٹ حاصل کرنے میں مشکلات درپیش ہیں! بہر حال وجہ کچھ بھی ہو یہ حوصلہ افزا بات ہرگز نہیں۔
ٹیسٹ اور انٹرویو کا مرحلہ طے ہوا تو ہم نے دوبارہ کوئٹہ کے لئے رخت سفر باندھا۔ اگلے دو مہینے بے چینی سے انتظار کرتے گزر گئے۔ ہمیں تاکید کی گئی تھی کہ ہم منتظمین سے کسی قسم کا رابطہ نہ کریں کیونکہ کامیاب طالبات کو ان کے ای میل اور فون پر اطلاع دے دی جائے گی اس لئے انتظار کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ انہی دنوں میرے میٹرک کے امتحانات بھی قریب تھے اور میں بڑی جانفشانی سے اس کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ امتحانات گزر گئے تو مارچ کے آخر میں مجھے اطلاع دی گئی کہ میں ٹیسٹ اور انٹرویو میں کامیاب ہو گئی ہوں۔ ساتھ ہی کہا گیا کہ اگر میں نے اپنا پاسپورٹ بنوا لیا ہے تو اس کی ایک کاپی انہیں ارسال کردوں دوسری صورت میں مجھے ارجنٹ پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے کے بعد اس کے ٹوکن کی کاپی فوراً بھیجنے کی تاکید کی گئی۔ میں نے چونکہ ابھی اپنا پاسپورٹ نہیں بنوایا تھا اس لیے اگلے دو دنوں میں بھاگ دوڑ کر کے ارجنٹ پاسپورٹ کے لیے درخواست دے دی اور ٹوکن منتظمین کو ای میل کردیا۔ اس کے بعد منتظمین کی طرف سے تقریباً روز فون اور ای میل آنے لگے جن میں مختلف معلومات مانگی جانے لگیں۔ بعض اوقات کئی صفحات پر مشتمل فارم ای میل کئے جاتے جنہیں بھرنے کے بعد پہلے تو واپس ای میل کرنا پڑتا پھر ان کی ہارڈ کاپی ڈاک کے ذریعے بھیجنی پڑتی۔ اس دوران مجھ سے تمام تعلیمی اسناد کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں اور کمیونیٹی سروسز یا والیونٹرنگ سے متعلق اسناد بھی فراہم کرنے کو کہا گیا جبکہ مختلف بیماریوں کے خلاف کی گئیں ویکسینیشنز اور صحت سے متعلق سرٹیفیکیٹس بھی فراہم کرنے کی تاکید کی گئی۔ کچھ دن مزید گزر گئے تو منتظمین کی جانب سے ہمیں بتایا گیا کہ انٹرویو میں شامل دو سو لڑکیوں میں سے اگلے مرحلے کے لیے صرف چالیس لڑکیوں کا انتخاب ہوا ہے لیکن یہ بھی حتمی انتخاب نہیں کیونکہ انہوں نے تمام طالبات کی اسناد امریکہ کی متعلقہ یونیورسٹیوں کو بھیج دی ہیں۔ اب یہ ان کی صوابدید پر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہیں۔ لہٰذا وہ حتمی طور تب ہی کچھ کہہ سکیں گی جب ان یونیورسٹیوں کی طرف سے کوئی خبر آئے گی۔ یاد رہے کہ ٹیسٹ اورانٹرویو میں کامیاب ہونے والی طالبات سے پہلے ہی یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ وہ میڈیکل، فلم اینڈ ٹی وی جرنلزم، جینیٹک انجنئرنگ اور ایرو سپیس میں سے کس شعبے میں مطالعے کا شوق رکھتی ہیں تاکہ ان کی اسناد اسی سے متعلق یونیورسٹی کو بھیجی جاسکیں اور اسی شعبے میں ہونے والی NSLC یعنی National Students Leadership Conference میں شرکت کے لیے نام فائنل کیا جاسکے۔ مجھے کیونکہ شروع سے ہی میڈیکل کا شعبہ پسند ہے اس لیے میں نے اسی شعبے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کردیا۔ 
اگلے کئی ہفتوں تک رابطوں اور پیغامات کے تبادلے کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا جس میں اب واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی کے ساتھ معلومات کا تبادلہ بھی شامل ہو چکا تھا۔ وہ جولائی کا مہینہ تھا جب مجھے اطلاع دی گئی کہ کامیاب طالبات کے لئے کراچی میں ایک روزہ Orientation پروگرام کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں سب کی شرکت لازمی ہے۔ اس بار فرق یہ تھا کہ نہ صرف میرے لیے دوطرفہ ہوائی ٹکٹوں کا بندوبست کیا گیا تھا بلکہ رہائش اور طعام کا بندوبست بھی منتظمین کے ذمہ تھا۔ اس سے پہلے میں نے کبھی اکیلے سفر نہیں کیا تھا لیکن والدین اور بھائی نے میری ہمت بندھائی جبکہ منتظمین نے بھی یقین دلایا کہ وہ مجھے لینے ایئرپورٹ پر موجود ہوں گے اور واپسی پر دوبارہ ایئرپورٹ پہنچانے کی ذمہ داری بھی ان کی ہوگی۔
مقررہ تاریخ کو میں کراچی پہنچی تو ایئرپورٹ پر بھائی کے علاوہ منتظمین میں شامل بعض مہربان خواتین مجھے لینے کے لیے وہاں موجود تھیں۔ اس بار ہمارا قیام ایک بڑے اور خوبصورت ہوٹل میں تھا جہاں پاکستان بھر سے آئی کامیاب طالبات کی اکثریت مجھ سے پہلے پہنچ چکی تھیں۔ اگلے دن ہوٹل ہی کے ایک ہال میں ہمیں ہمارے سفر امریکہ سے متعلق ضروری معلومات فراہم کی گئیں اور سکالر شپ کی نوعیت سے متعلق مزید آگاہ کیا گیا۔ اہم بات یہ تھی کہ پچھلے مرحلے میں جن چالیس طالبات کا انتخاب ہوا تھا ان کی تعداد اب کم ہوکر صرف چوبیس رہ گئی تھی کیونکہ امریکی یونیورسٹیوں نے حتمی طور پر انہی چوبیس ناموں کی منظوری دی تھی۔

مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ ان چوبیس ناموں میں ایک نام میرا بھی تھا۔

شمامہ حسن
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *