ہزارہ ٹاؤن کا کچرہ
عباس حیدر
عید کا تیسرا دن تھا۔ ہزارہ ٹاؤن میں متعدد گھروں کے سامنے کچرے سے بھرے تھیلے پڑے ہوئے تھے جن میں موجود قربانی کی آلائشوں سے شدید بد بو اٹھ رہی تھی۔ کچرہ اٹھانے والے تین دن سے نہیں آرہے تھے یوں بد بو کی وجہ سے گلیوں میں گھومنا پھرنا مشکل ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے ہزارہ ٹاون کا یہ حال صرف عید کے دنوں میں ہی ہوتا تھا جبکہ باقی دنوں میں یہاں کے مکین اپنی مدد آپ کے تحت کوڑا اٹھانے کا انتظام کیا کرتے تھے۔ ہزارہ ٹاون کے باسیوں نے اپنی مدد آپ ہی کے تحت سیوریج سسٹم ، پانی اور صفائی کے بھی انتظامات کر رکھے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ صفائی ستھرائی سے نہ صرف خود کو مختلف بیماریوں سے بچایا جاسکتاہے بلکہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ ہم ہمیشہ نماز، روزہ اور زکوات کی تبلیغ سنتے آئے ہیں۔ اس کے باوجود ہم صفائی ستھرائی کی طرف خاص توجہ نہیں دیتے۔ حالانکہ حدیث نبوی ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ علما دین کی طرف سے نماز ، روزہ اور زکوات پر زور دیا جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نماز دین کا ستون ہے۔ لیکن صفائی اور طہارت کے بغیر نماز کی قبولیت پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔
ہر چند کہ ہزارہ ٹاون کی گلیوں سے لوگوں کے اپنے خرچے پر کوڑا اٹھایا جاتا ہے لیکن بعد میں اسے قبرستان سے منسلک ایک ایسے میدان میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں لوگ روز صبح جاگنگ یا واکنگ کے لئے جاتے ہیں۔ ہزارہ ٹاؤن میں کوئی عوامی پارک یا کھیل کا میدان نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے باسی ورزش کے لئےاسی میدان کا رخ کرتے ہیں جہاں ہر طرف کوڑے کے ڈھیر پڑے ہوتے ہیں۔ کوڑے کے اس ڈھیر کو اکثر جلایا بھی جاتا ہے۔ لازمی بات ہے کہ لوگ ورزش اور بہتر صحت کے حصول کے لئے وہاں آتے ہیں لیکن وہاں اتنی بدبو ہوتی ہے کہ سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر کچرہ اٹھانے یا جگہ تبدیل کرنے لے لئے اقدام نہ کیا گیا تو گندگی اور گندے دھویں کی وجہ سے لوگوں کی صحت اور زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بدھ اور جمعہ کے روز جب لوگ اپنے پیاروں کے لیے مغفرت کی دعا پڑھنے قبرستان أتے ہیں تو بد بو اور دھویں کی وجہ سے انہیں بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہی مسائل کو دیکھتے ہوئے علاقہ ایم پی اے جناب قادر نائل نے عید کے بعد کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات کی جس میں انہیں مسئلے کے حل کی یقین دہانی کرائی گئی۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تا دم تحریر اس وعدے پر عمل نہیں کیا جاسکا اور ہزارہ ٹاون کے عوام ابھی تک کوڑے سے اٹھنے والی بدبو میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ وہ شائد کچھ زیادہ ہی بد نصیب واقع ہوئے ہیں جن کے ہاں نہ تو سکول ہیں نہ ہی کالج، پھر بھی پاکستان کے قوانین کی پاسداری کو اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گیس ، بجلی اور ٹیلیفون کے بِل بغیر کسی تاخیر کے جمع کرا دیتے ہیں۔ اس کے باوجود یہاں گیس کا پریشر اتنا کم ہے کہ کھانا پکانا بھی مشکل ہے۔ اس بارے میں کئی بار متعلقہ محکمے میں شکایات درج کی گئی ہیں لیکن حیف ہے کہ ابتک کسی قسم کی شنوائی نہیں ہوئی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی اتنی زیادہ ہے کہ یہاں کے باسی اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بھی بازار کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ کم وولٹیج کی وجہ سے بجلی کی موجودگی میں بھی بہت سے کام انجام نہیں دیے جا سکتے۔ اگرچہ حکومت یہاں ٹیکسوں کی وصول میں تو بہت پھرتی دکھاتی ہے لیکن بدلے میں یہاں کے باشندوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات مہیا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی۔ ہزارہ ٹاون میں مسائل کا انبار ہے۔ علاقے کے نئے ایم پی اے سے لوگوں کو بہت سی توقعات ہیں جن میں ہزارہ ٹاون کی گلیوں کے نام کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ گلیوں اور سڑکوں کے نام یا بلاکس نہ ہونے کی وجہ سے باہر سے آئے مہمانوں اور خطوط کی ترسیل کے وقت ڈاکیے کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے جن کا حل وقت کی اہم ضرورت ہے۔
- ہزارہ ٹاؤن! حکومتی مراعات سے محروم ۔۔۔ عباس حیدر - 20/04/2022
- صحرا کا مسافر ۔۔۔ عباس حیدر - 07/01/2020
- خواب خرگوش ۔۔۔ عباس حیدر - 12/11/2019