ماہیت اور جوہر
تحریر: فدا حسین
ایک مرتبہ سینٹ آگسٹائن نے ”وقت/زمان“ کی وضاحت میں یہ جملے کہے تھے۔
”اگر مجھ سے کوئی نہ پوچھے تو میں جانتا ہوں کہ ’وقت‘ کیا ہے اور اگر میں چاہوں کہ پوچھنے والے کے آگے وضاحت کروں تو میں نہیں جانتا۔“ اِس سلسلے میں لغت بھی کوئی مدد نہیں کرتی۔ کیونکہ اس میں وقت کی تعریف ”وقفہ“ سے کی گئی ہے اور وقفے کی تعریف وقت سے۔ اس طرح تو ہم کہیں بھی نہیں پہنچتے! درحقیقت ”زمان و مکان“ کی نوعیت ایک پیچیدہ فلسفیانہ مسئلہ ہے”(اقتباس از: مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس)۔
ٹھیک اسی طرح فلسفہ میں ”ماہیت اورجوہر“ بھی نہایت مبہم اصطلاحات جانی اور مانی جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کی گردان عموماً مغاطے کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ مختلف لغاتوں میں ان کے لفظی معنی: خاصیت، غیر مرکب، ساخت، حقیقت، کیفیت، ماوہ یا ماہیت (Substance)، اصلیت، قائم بالذات یا ماہیت اور جوہر (Substance and Essence) کے ہی ہیں۔ ”مگر میری نظر میں، تمام معنی آفریں لغاتوں سے اخذ کردہ درج بالا تمام کے تمام معنی ان کا احاطہ نہیں کرپائیں گے اور نہ ہی کوئی معنی اندیش ان سے مطمئن ہو کر ’ماہیت اور جوہر‘ کے عین جوہر کو درک کر سکے گا۔“ (زمان و مکان کے مطابق) جدید آلات کی عدم دستیابی کی وجہ سے فلاسفہ آن زماں (عہدِعتیق سے قرونِ وسطیٰ کے اواخر تک کا زمانہ) فقط ”ماہیت“ پر اکتفاء کرتے اور ”ماہیت“ ہی کو ”جوہر“ تصور اور تسلیم کرتے رہے۔ جس کی مثال ارسطو کی اپنی اختراع ”ماوہ Substance“ ہے۔ (ماوہ Substance وہ بنیادی شے ہے، جس پر مادے کا ڈھانچا استوار ہے۔ مثلاً: لوہا، سونا، چاندی، پتھر یا لکڑی وغیرہ) اس کی وضاحت آج ہم اس انداز میں کرسکتے ہیں۔ ”مجسمہ مادہ ہے اور اس کا ماوہ Substance پتھر ہے، گلاس مادہ ہے اور اس کا ماوہ شیشہ ہے، کرسی مادہ ہے اور اس کا ماوہ لکڑی ہے وغیرہ وغیرہ۔“ بغیر سائنسی لوازمات کے جب ارسطو عمیق العمیق میں گیا، تو انہوں نے خیالی اٹکل دوڑا کر ”روح“ کو انسان کا جوہر قرار دیا۔ (یاد رہے: قدیم یونانی فلاسفہ ”روح“ سے ”ذہن اور شعور“ بھی مراد لیتے تھے)
یوں تو ڈیموکریٹس اور لیوسی پس نے چوبیس صدی قبل ہمیں ”ایٹم“ کی غیرواضح ساخت کی بنیاد فراہم کردی تھی، جو بیک وقت فلسفیوں اور سائنسدانوں کے اذہان میں اس کی اصل ساخت دریافت ہونے سے پہلے تک گردش کرتی رہی۔ وہ اتنا جانتے تھے: کہ ایٹم ہی کسی مادے کا اصل اور مستند ”جوہر“ ہوسکتاہے۔ البتہ اُن کے لیے نظر نہ آنے والے ایٹم کی ساخت کا تصور کسی چھلاوے سے کم نہ تھا، جو قرونِ وسطیٰ کے اواخر اور نشاۃ ثانیہ کے اوائل تک گاہے بگاہے بغیر استدلال کے اُن کے بے سروپا مباحث میں زیربحث ضرور رہا۔ اوائلِ اُنیسویں صدی جب خُردبین Microscope جیسا نادر سائنسی آلہ ایجاد ہوا تو جیسے ان کے ہاتھ اِس گورکھ دھندے کی چابی لگ گئی۔ یہ وہ مرحلہ ہے، جہاں ”ماہیت“ سے ”جوہر“ علیحدہ ہوجاتاہے۔
آج ہم اِن دستیاب آلات کی مدد سے سونے جیسے دھات کی موٹی موٹی ماہیتوں (اس کی چمکیلی زرد رنگت، حجم کے لحاظ سے اس کا مخصوص وزن اور اس کی مخصوص نرمی) پر نہیں بلکہ اس میں موجود اصل اور مستند جوہروں (اُس کے 3129 ڈگری سینٹی گریڈ پر پگھلنا اور 1064.18 ڈگری سینٹی گریڈ پر واپس جمنے کی صلاحیت اور اس کے ہرہر ایٹم میں 79 اُناسی الیکٹرونز، 79 پروٹونز اور 118 نیوٹرونز) کے دستیاب ثبوتوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ اسی طرح آج ہم پانی کا اوپر سے نیچے کی طرف بہنے، اس کے بے رنگ و بے ذائقہ ہونے، کسی برتن میں ڈالتے ہی فوراً اُسی کی شکل اختیار کرنے اور اُسی برتن کو آگ پر رکھ کر اُس کے اُبلنے اور شدید سردی میں اُس کے جمنے پر نہیں بلکہ اس کے100 ڈگری سینٹی گریڈ پر اُبلنے، (0) زیرو پر دوبارہ جمنے اور اس میں موجود H2O (دو ہائیڈروجن ایٹمز اور ایک آکسیجن ایٹم) کے سالمات Molicules کی موجودگی پر ہم صاد لکھیں گے۔ یہاں ہمیں یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ تسلسل سے جاری ارتقائی مراحل لامتناہی ہیں۔ جبکہ سائنس نے تو ابھی ابھی اس شاہراہ پر قدم رکھا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی مزید موشگافیوں کو ہم نظرانداز قطعاً نہیں کرسکتے۔
اِن مصدقہ آلات کی مسلمہ کارکردگیوں اور دیگر تشریحات و توضیحات کو سامنے رکھتے ہوئے ”ناچیز کسی مخصوص مادے کی مخصوص غیرمرکب خواص کو اُس کی ’ماہیت یا جوہر‘ تسلیم کرتا ہے جن میں اس مخصوص مادے کی تمام کی تمام خصوصیات مضمر ہوں اور اسی قاعدہ و ترکیب کو آفاقی سماجی نظاموں پر بھی منطبق کرتا ہے۔ جیسا کہ: سرمایہ داری نظام کا جوہر ’استحصال‘ اور اشتمالیت Communism کا ’مساوات اور پیداوار میں ساجھے داری‘ ہے۔“ زمان و مکان کے مطابق کسی حد تک شاید نادرست نہیں ہوں گا۔ مگر ناچیز ”ماہیت اور جوہر“ بارے اپنی دی گئی آراء سے پوری طرح اب بھی مطمئن نہیں۔