شکوے سے شُکر کا سفر ۔۔۔ زہرا علی 

افسانہ

شکوے سے شُکر کا سفر

 تحریر: زہرا علی 

پہلی قسط

“ای بابئی خدا نجات بدہ از دست از تو شُملی، تو رسوا ، کد ایقس زبان درازی از تو ، تو دہ دو روزخاد سر خو سفید کدہ امادی پس از خانے شوئی خو۔  ای بابئی تور ہ چپ بوبرہ انگہ”۔  یعنی “اللہ معاف کرے، جتنی گز بھر کی تمہاری لمبی زبان ہے، تم تو دو دن بھی کسی کے ساتھ ٹک کرنہیں رہ پاؤگی اور شادی کے دوسرے دن ہی واپس بھیج دی جاؤگی!”  دادی کے یہی الفاظ سنتے سنتے میں بڑی ہوئی تھی۔ اور میرا جواب بھی ہمیشہ یہی ہوتا تھا کی اگر تمہاری چڑیل جیسی بیٹیوں کے ساتھ لوگ رہ سکتے ہیں تو میں تو اُن سے کئی درجے بہتر ہوں۔ اگر آپ کے خیال میں میرا گزارا کسی کے ساتھ نہیں ہو گا تو آپ ہی میری عادت ڈال دیجیۓ، طلاق ہو کرآ بھی گئی تو میں نے یہی رہنا ہے، تب آپ کو دقت نہیں ہو گی۔ آپ تو یہی چاہتی ہےناں کہ میں چپ چاپ آپ کی سنتی رہوں اور امی کی طرح آپ کی جوتیاں کھاؤں! تو میں آپ کو بتا دوں کہ امی کی بیٹی ضرور ہوں لیکن پوتی میں آپ کی ہی ہوں اور یہ میں نے آپ سے ہی تو سیکھا ہے کہ اپنےسامنے آنے والے ہر دوسرے شخص کا منہ نوچتی رہوں۔

کسی بھی روایتی دادی اور پوتی کے برعکس میری اور دادی کی کبھی نہیں بنی، ہم دونوں کا جھگڑا روز کا معمول تھا۔ جتنی نفرت اور غصّہ اُن کی آنکھوں میں میرے لیے ہوتا تھا، اس کا جواب میں کبھی ڈھونڈ نہیں پائی ۔ ہاں البتہ میرا لڑکی ذات ہونا ان کے لیے بہت تکلیف دہ حقیقت تھی ۔ امی تو شروع سےہی اپنے منہ میں دہی جمائے بیٹھی تھی۔ ان کے حصّے کی زبان بھی مجھے استعمال کرنی پڑتی تھی۔ لگتا تھا وہ میری نہیں میں اُن کی امی ّ ہوں، دادی سے اُن کو بچانے کے لئے ہر بار مجھے ہی بیچ میں کودنا پڑتا تھا۔ ظلم سہنے کی اُن کو عادت  جوہوگئی تھی۔  خود تو کچھ نہیں کہتی تھی الٹا مجھے  چپ کرانے کی ناکام کوشش کرتی ۔  اور کچھ نہیں کر سکتی تھی تو مجھے کمرے میں بند کر کے خود کو دادی کے حوالے کردیتی۔

کاش دادی صرف لعن طعن اور گالم گلوچ پر ہی اکتفا کرتی۔  بات بات پر امی کی مار پیٹ کیے بغیر ان کے حلق سے نوالہ نہیں اترتا تھا۔ میری لڑاکا طبیعت کے سبب وہ گالم گلوچ اور بد دعاؤں سے کام چلا لیتی تھی لیکن اپنا باقی ماندہ غصّہ کسی نا کسی بہانے امی  پر نکال لیتی تھی ۔ مار پیٹ کرتے ہوۓ وہ بھول جاتی کہ وہ ایک زندہ انسان کو مار رہی ہے۔  دیکھنے سننے والوں نے دادی کو ہٹلر دادی کا نام دے رکھا تھا ۔ لگتا نہیں تھا کی دادی کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہے۔  چست و چالاک ،  چھریرا بدن اور انتہائی شریر طبعیت کی مالک۔ اپنی اکلوتی بہو پر جتنے ظلم کے پہاڑ وہ ڈھاتی آئی تھی، سارا خاندان اور محلہّ اُس کا گواہ تھا۔ گھر میں شاید کچھ سکون رہتا اگر میری دونوں شادی شدہ پھوپھیاں اپنے اپنے بچوں سمیت ہر دوسرے دن نہ آدھمکتیں ۔  ہر بار اُن کے آنے پر ایک تماشہ ضرور ہوتا۔  دونوں ایک سے بڑھ کر ایک لڑاکا تھیں ۔ “یک کم ، دو غم ، سہ سم”  کی ایکدم صحیح عکاسی کرتیں۔ وہ تینوں اکھٹے ہوتیں تو میری اور امی کی شامت آ جاتی۔ امیّ کے جسم پر جگہ جگہ زخم کے گہرے نشانات، دادی، میری فسادی پھو پھیوں اور ان کے مجازی خدا کی مرہون منت تھے۔ اُن کو کبھی میں نے نارمل حالت میں نہیں دیکھا تھا۔ کھبی سر پر پٹّی، کبھی ٹوٹا ہوا بازو، کبھی ماتھے پر گہرے زخم تو کبھی کچھ اور۔ غرض ظلم و ستم کی چلتی پھرتی زندہ مثال تھی۔ طبیعت کی انتہائی عاجز اور خاموش مزاج۔ اتنی کمزور اور لاغر کہ دو ثانیے کیلئے ناک پکڑلو تو ان کا دم ہی نکل جائے۔ اپنے نام کی مانند وہ گل چہرہ تھی۔  چہرے پر زخموں کے گہرے نشانات ہونے کے باوجود اُن کے خوبصورت نین نقش سے اُن کا حسن بحال تھا۔ گول چہرہ ، سفید رنگت ، بڑی بڑی بھوری آنکھیں، متوازن مگر اونچی ناک اور بھورے بالوں والی بلند قامت پری چہرہ عورت۔

اس کے برعکس اُن کے میاں یعنی میرے ابّا حضورکا حلّیہ دیکھ لیجیے۔  یہاں پراگر میں کسی قسم کی غلط بیانی یا جانبداری سے کام لوں تو میرا قلم ٹو ٹ جائے۔ ابّا کا قد تاحیات چار فُٹ ہی رہا۔ نہایت سادہ الفاظ میں وہ ایک ننھے منے سے آدمی تھے۔ شکل و صورت میں اتنا بھی بگاڑ نہ آتا اگر حد سے زیادہ بڑی اور موٹی ناک سے اُن کے چہرے کے باقی خدوخال متاثر نہ ہوتے۔ خود میری دادی بیان کرتی ہے کہ اُن کے لخت جگر کی پیدائش پر جب میرے مرحوم دادا نے پہلی مرتبہ اُن کو گود میں اٹھایا تھا  تو بسم اللہ، سبحان اللہ یا ماشا اللہ کے بجائے بے ساختہ اُن کے منہ سے نکل گیا تھا ” توووّ ای باچہ کو پُر از بینی یہ”  یعنی “برخوردار تو ناک ہی ناک لے کر پیدا ہوئے ہیں”۔ وزن بہت ہی زیادہ اور باہر کو نکلتی ہوئی بڑی سی توند۔ کسی بچے کے مانند چھوٹے چھوٹے ہاتھ پیر تھےجو اُن کی عمر اور حلیے سے کسی بھی لحاظ سے مطابقت نہیں رکھتےتھے۔ بہت ہی بے سرے انداز سے ترشی ہوئی مونچھ اور داڑھی ،سر کے بال اتنے گھنے اور درشت تھے کہ اگر وقت پر نا کٹوائےجاتے تو اُن کا حلیہ اتنا ڈراؤنا ہو جاتا کہ خود میری دادی پھوپھیوں کے بچوں کو ابّا کی ڈراونی شکل یاد دلا دلا کر سلُاتی تھی۔  مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرحوم دادا میرے ابّا کو دیکھ کر دادی سے پوچھا کرتے تھے “بیگم تمہیں کامل یقین ہے  ناں کہ یہ ہمارا ہی تخلیق کردہ نمونہ ہے؟ میرا مطلب ہے غلطی سے کہیں پر بدل ودل گیا ہوگا”۔ جواب میں دادی کی ایک گھورتی ہوئی نظر دادا  ابا کو چُپ کرا نے کے لیے کافی ہوتی۔ خیر شکل و صورت جیسی بھی ہو، انسان کے اچھے اخلاق و کردار سے وہ کافی حد تک دب ہی جاتی ہے۔ مگر ابا حضور، اللہ نے جیسی شکل دی تھی اُس سے کہیں زیادہ خراب اور برا ان کا اخلاق تھا۔ طبیعت میں تندی اور غصہ ان کودادی سے وراثت میں ملا تھا جو بد قسمتی سے آگے مجھ میں منتقل ہوا تھا۔ قسم خدا کی میں نے آج تک اُن کے جیسا نکما اور کام چور بندہ نہ دیکھا نہ سنا۔  بس اللہ سے یہی دعا کرتی رہتی کہ اُن کی اس نایاب تخلیق کی میرے ابا آخری کاپی ہوں۔ مجھے تو یہی لگتا تھا کہ دادی کو سارا غصہ اسی بات کا تھا کہ اُن کے نکمے بیٹے سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی تھی ۔  ایک پوتا ہی ہوتا تو شاید اُن کے کوئی کام آجاتا لیکن ہوئی پوتی۔

کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے!  یہی میرے ابا پر خوب جچتا تھا۔ سارا سارا دن بستر توڑتے رہتے اور اٹھتے تو اپنی بچگانہ اور بے ہنگم حرکتوں سے سب کی ناک میں دم کردیتے۔ خدا میرے مرحوم دادا کو جنت نصیب کرے کہ اُن کا ابا کے لیے وراثت میں چھوڑے ہوئے ہمارے موجودہ گھر کے علاوہ ایک  اور بڑے سےمکان اور مارکیٹ میں آدھے درجن دکانوں کے کرایوں سے ہم چار جانوں کا گزارا ہو جاتا تھا ورنہ شاید ابا کی سُستی اور کاہلی کے سبب ہم فاقوں مرتے۔ سالوں پہلے میں نے اس گھر میں آنکھ کھولی تو دادی نے میرا نام بس بی بی تجویز کیا۔  سننے پر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ ایک نام سے زیادہ ایک دعا ہے۔ یعنی “اے پاک بی بی بس کر، ہمیں اور بیٹی نہ دے”  اور حقیقت بھی یہی تھی کہ ان کو امّی سے بیٹا ہی چاہیے تھا۔ اللہ کی مرضی کہ میرے بعد یکے بعد دیگرے امّی کے ہاں تین عدد بیٹے ہوئے لیکن ایک بھی زندہ نہ رہا اور عمر کے پہلے برس ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اُس کے بعد امی کو کبھی بچہ نہ ہوا، اور دادی کے لیے وہ تا حیات اُن کے ارمانوں کی قاتل بنی رہی۔ خیر میرا نام بس بی بی تو نہیں رکھا گیا البتہ ابّا اور پھوپھیوں کی خواہش پر فر شتہ رکھا گیا۔  لیکن دادی کے بقول “فرشتوں والی کوئی بھی صفت تو تجھےچھو کر بھی نہیں گزری، معصومیت اور شرافت سے تو گویا تم دور دور تک واقف ہی نہیں ہو، شروع سے ہی انتہائی درجے کی لڑاکا اور زبان دراز لڑکی ہو تم۔ فرشتہ نہیں کوئی شیطان ہو اورعذاب ہی عذاب ہوتم”۔ اب بچپن سے جو دیکھا تھا وہی تو سیکھا تھا۔ چپ اور عاجز طبیعت کی تو گھر میں ایک اکیلی امی ہی تھی جبکہ تیز و تند لہجے، ہر بات پر لڑنے جھگڑنے والے زبان کے انتہائی تیز میرے اردگرد چار چار لوگ تھے۔  تو بس ان کا اثر مجھ پر زیادہ ہوا تھا۔ جب تک چھوٹی تھی امی پر ظلم و ستم کو دیکھ کر روتی اور سب کو بد دعائیں دیتی رہتی تھی۔ لیکن جوں جوں بڑی ہوتی گئی امی کی مظلومیت کو دیکھ کر اُن کی ڈھال بن کر دادی اور ابّا کے سامنے کھڑی ہو جاتی ۔

امی واقعی میں دنیا کی سب سے مظلوم عورت تھی۔ آگے پیچھے کوئی نہیں تھا۔ نہ ماں باپ نا ہی کوئی بہن بھائی۔  پلی بڑھی بھی اپنے کسی رشتے دار کے گھر میں تھی۔ شاید اسی لئے دادی، ابا یا پھو پھیوں کو اُن پر ظلم کرتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ وہ سارا سارا دن کام میں جتی رہتی اور غلاموں کی طرح سب کی جی حضوری کرتی۔ اگر کھبی کوئی بھول چوک ہوتی تو معافی کی حقدار بالکل نہیں تھی۔ سب کو کھانا پانی دے کر خود آخر میں کچن میں ہی دو نوالے حلق سے اتارلیتی۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ کھبی باقی گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر اُنہوں نے  کھانا کھایا ہو۔ مار کھا کھا کر اتنی ڈرپوک ہوگئی تھی کہ اپنے نام کے پکارے جانے پر تھر تھر کانپنے لگتی۔ لیکن سخت سے سخت تکلیف پر بھی میں نے اُن کے آنسو کھبی نہیں دیکھے تھے۔  شاید وہ سوکھ چکے تھے۔ میری منت سماجت کرتی رہتی کہ میں اُن کے لیے دادی اور ابّا سے نا لڑا کروں کیونکہ دادی یا کسی اور کا مجھےبُرا بھلا کہنا انہیں بہت دکھ دیتا تھا۔ لیکن مجھ سے اُن کی حالت نہیں دیکھی جاتی تھی۔ میں دن میں امی کے لیے کتنا ہی لڑتی جھگڑتی اور مضبوط رہنے کی کوشش کرتی  لیکن رات کے اندھیرے میں میرا دل پھٹنے لگتا۔  روتے روتے میرا تکیہ آنسوؤں سے بھیگ جاتا لیکن میرے آنسو نہ تھمتے تو میری اور اللہ میاں کی خوب لڑائی ہوتی۔ “اللہ میاں آپ میں نے مجھے پیدا ہی کیوں کیا جب میری اپنی دادی مجھ سے اتنا نفرت کرتی ہے!  اور اگر پیدا کیا ہی تھا تو کیا ضروری تھا کہ میں اسی مظلوم عورت کی بیٹی ہوتی؟ کیا میری امی کو اس گھر میں بھیج کر آپ کا دل نہیں بھرا کہ ا ُن کی مصیبتوں میں اضافےکے لیے مجھے اُن کی بیٹی بنا دی؟ اللہ میاں آپ کہاں ہو؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے  کہ اس گھر میں میری امی کے ساتھ کیسا سلوک ہو رہا ہے؟ کیا میری امی آپ کی بندی نہیں؟ آپ ان ظالموں کے ہاتھ توڑ کیوں نہیں دیتے؟ اللہ میاں آپ مجھے اور میری ماں کو اٹھا ہی لے، میری دُعا قبول کر لے، اب کے ہم سوئے تو کھبی نا جاگے” ۔ اللہ میاں سے امی کی حالت زار پرگلے شکوے کرتے کرتے  میں سو جاتی لیکن اگلے دن اُسی گھر اور انہی حالات میں پھر سے میری آنکھ کھلتی تو زندگی سے نفرت ہونے لگتی۔

سالوں پہلےعید کا وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے جب میری دونوں پھوپھیاں مع اپنے خاوندوں اور سسرالیوں کے اطلاع دیئے بغیر دوپہر کے کھانے پر آدھمکی تھیں۔ امی پہلے چائےاور خشک میوے سے اُن کی خاطر داری میں لگی ہوئی تھی کہ نہ جانے کیسے اُن کا پاؤں فرش پر رکھی گرم چائے کی کیتلی سے جا ٹکرایا تو ساری گرم چاۓ  گر نے سے ان کا پاؤں بُری طرح جل گیا۔ اس کے باوجود انہوں نے گھنٹے دو گھنٹے میں اکیلے ہی پندرہ بیس لوگوں کا کھانا تیار کر لیا۔ میں اُس وقت سات یا آٹھ برس کی تھی اور زیادہ ہاتھ نہیں بٹا سکتی تھی۔ خیر دسترخوان سجا تو سب کھانا کھانے کے لیے موجود تھے سوائے امی کے۔   یہ دیکھ  کر چھوٹی پھو پھی کی ساس نے  از راہ ہمدردی کہا “ارے فرشتہ ! ذرا اپنی امی کو تو بلا لاؤ تاکہ وہ بھی آکر ہمارے ساتھ کھانا کھائے”۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی دادی بول پڑی “چھوڑو بہن اس کم بخت کو، بعد میں کھا لے گی۔ بچا کُچا ہی کھانے کی عا دی ہے وہ”۔ میں کتنی چھوٹی تھی پھر بھی اتنے لوگوں کے سامنے امی کی اس بے عزتی پر میرا دل پھٹنے لگا۔  میں کچھ کھائے بغیرہی  اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور دیر تک امی کی بے عزتی پر روتی رہی۔

زہرا علی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *