ہر تین سال کے بچے کے ذہن میں کسی نہ کسی چیز کے بارے میں سوال ضرور پیدا ہوتا ہے اورانہی سوالوں کے ساتھ عمر کی حد اور ذہن روزافزوں پختہ ہونے لگتا ہے۔ “پاپا یہ کیا ہے ؟ بچے سکول کیوں جاتے ہیں اوروہ وہاں جاکر کیا کیاکرتے ہیں ؟ پاپا آپ مجھے پاپڑ کھانے سے کیوں روک رہے ہو ؟ پاپا آپ ہر روز صبح سے شام تک کہاں جاتے ہو ؟ پاپا فلاں کے پاس گاڑی ہے آپ کے پاس کیوں نہیں ہے ؟ پاپا آج ہمارے محلے میں سوز وکی آیا تھا جس پر دوبڑے بڑےلاؤڈ اسپیکر لگے ہوئے تھے جن سے بہت زور سے آوازیں آرہی تھیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ کل سب اس چوک پر جمع ہوں۔ کسی شخص کا نام بھی لے رہا تھا کہ وہ خطاب فرمائیں گے۔ پاپا جب آپ میری عمر کے تھے تو کیا اس طرح کےاعلانات ہواکرتے تھے ؟ پاپا لوگ اعلان کیوں کرتےہیں ؟پاپاانتخابات کیاہوتےہیں ؟پاپا میں کیسے ٹی وی میں جاسکتاہوں ؟ پاپا ایم پی اے کیا ہوتا ہے ؟ پاپا ایم این اے کیاہوتا ہے ؟ پاپا وزیراعلی کیاہوتاہے ؟ پاپا وزیراعظم کیا ہوتا ہے؟ پاپا دہشت گرد کسے کہتے ہیں ؟ قانون کیا ہوتاہے ؟” یعنی کسی بھی چیزیا جگہ کو دیکھ کر اس کے بارے میں سوال ضرور کرتا ہے۔ انہی سوالوں کے جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ بچہ بیس سال کا ہوجاتا ہے پھر اس کی شادی اور بعد میں اولاد اس کے بعد یہ آدمی خود ان سوالوں کاجواب دہ بن جاتاہے۔ کل کلاں اگر میرے بچے اسی طرح سوال کریں تو میں ان تمام سوالوں کا جواب تسلی سے دے سکتاہوں مگر جب میں نوجوان کو لیکر ہزارہ قبرستان میں اپنے رفتگان و مرحومین کے لئے فاتحہ خوانی کروں اور وہ مجھ سے شہدا کے قاتلوں اور پس ماندگان کے بارے سوال کرےتو میں اسے کیا جواب دوں؟
کیا میں اُسے وہ سب کچھ بتا دوں جو ہر بار ایسے موقعوں پر ہوتا چلا آرہا ہے؟ یعنی احتجاج سے ہٹ کر شہداء کے خون پر محض اپنی سیاست چمکانے کے لئے فوٹو سیشن اور دھواں دھار تقریریں کرنا، کبھی غیر سنجیدہ اخباری بیانات داغنا توکبھی ٹی وی ٹاک شوز میں بغیر سوچے سمجھے نامناسب جملوں کے استعمال سے ناظرین کو جگ ہنسائی کا سامان مہیا کرنا اور کیا میں اُسے یہ بھی بتا دوں، کہ شہداء کے خون سے رنگین فضا میں ہمارے منتخب نمائندوں کی تذلیل و تحقیر ہوتی رہی؟ کل کلاں میرا بیٹا جوان ہوکر ان اشخاص کو کن القابات سے یاد کرے گا، جنہوں نے قاتلوں کو کیفرِکردار تک پہنچائے بغیر دھرنے کے پنڈال کو غیرمشروط طور پر برخاست کیا؟
میں کیا جواب دوں؟ ۔۔۔ عباس حیدر
میں کیا جواب دوں؟
عباس حیدر
ہر تین سال کے بچے کے ذہن میں کسی نہ کسی چیز کے بارے میں سوال ضرور پیدا ہوتا ہے اورانہی سوالوں کے ساتھ عمر کی حد اور ذہن روزافزوں پختہ ہونے لگتا ہے۔ “پاپا یہ کیا ہے ؟ بچے سکول کیوں جاتے ہیں اوروہ وہاں جاکر کیا کیاکرتے ہیں ؟ پاپا آپ مجھے پاپڑ کھانے سے کیوں روک رہے ہو ؟ پاپا آپ ہر روز صبح سے شام تک کہاں جاتے ہو ؟ پاپا فلاں کے پاس گاڑی ہے آپ کے پاس کیوں نہیں ہے ؟ پاپا آج ہمارے محلے میں سوز وکی آیا تھا جس پر دوبڑے بڑےلاؤڈ اسپیکر لگے ہوئے تھے جن سے بہت زور سے آوازیں آرہی تھیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ کل سب اس چوک پر جمع ہوں۔ کسی شخص کا نام بھی لے رہا تھا کہ وہ خطاب فرمائیں گے۔ پاپا جب آپ میری عمر کے تھے تو کیا اس طرح کےاعلانات ہواکرتے تھے ؟ پاپا لوگ اعلان کیوں کرتےہیں ؟پاپاانتخابات کیاہوتےہیں ؟پاپا میں کیسے ٹی وی میں جاسکتاہوں ؟ پاپا ایم پی اے کیا ہوتا ہے ؟ پاپا ایم این اے کیاہوتا ہے ؟ پاپا وزیراعلی کیاہوتاہے ؟ پاپا وزیراعظم کیا ہوتا ہے؟ پاپا دہشت گرد کسے کہتے ہیں ؟ قانون کیا ہوتاہے ؟” یعنی کسی بھی چیزیا جگہ کو دیکھ کر اس کے بارے میں سوال ضرور کرتا ہے۔ انہی سوالوں کے جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ بچہ بیس سال کا ہوجاتا ہے پھر اس کی شادی اور بعد میں اولاد اس کے بعد یہ آدمی خود ان سوالوں کاجواب دہ بن جاتاہے۔ کل کلاں اگر میرے بچے اسی طرح سوال کریں تو میں ان تمام سوالوں کا جواب تسلی سے دے سکتاہوں مگر جب میں نوجوان کو لیکر ہزارہ قبرستان میں اپنے رفتگان و مرحومین کے لئے فاتحہ خوانی کروں اور وہ مجھ سے شہدا کے قاتلوں اور پس ماندگان کے بارے سوال کرےتو میں اسے کیا جواب دوں؟
کیا میں اُسے وہ سب کچھ بتا دوں جو ہر بار ایسے موقعوں پر ہوتا چلا آرہا ہے؟ یعنی احتجاج سے ہٹ کر شہداء کے خون پر محض اپنی سیاست چمکانے کے لئے فوٹو سیشن اور دھواں دھار تقریریں کرنا، کبھی غیر سنجیدہ اخباری بیانات داغنا توکبھی ٹی وی ٹاک شوز میں بغیر سوچے سمجھے نامناسب جملوں کے استعمال سے ناظرین کو جگ ہنسائی کا سامان مہیا کرنا اور کیا میں اُسے یہ بھی بتا دوں، کہ شہداء کے خون سے رنگین فضا میں ہمارے منتخب نمائندوں کی تذلیل و تحقیر ہوتی رہی؟ کل کلاں میرا بیٹا جوان ہوکر ان اشخاص کو کن القابات سے یاد کرے گا، جنہوں نے قاتلوں کو کیفرِکردار تک پہنچائے بغیر دھرنے کے پنڈال کو غیرمشروط طور پر برخاست کیا؟