تہذیب و ثقافت یا تاریخی مادیت
فدا حسین
دوسری قسط
رائج زبان کو اگر کسی تہذیب کا دل تسلیم نہ کیا جائے تو بے انصافی ہوگی۔ مگر متروکہ اجزائے تہذیب و ثقافت کی وجہ سے اُس کا دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ اس کی مثال ہم کچھ یوں پیش کرسکتے ہیں کہ جب متروکہ اشیاء موجود ہی نہ ہوں، جب کوئی چیزمقابل ہی نہ ہو، توگذرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہنوں سے خودبخود اُن کے نام و صورت آہستہ آہستہ مدہم اور دھندلی ہوتی چلی جائے گی۔ یہاں تک کہ ہم انہیں بالکل فراموش کردیں گے اور اُن کی جگہ اُن کے متبادل اشیاء کے نام (چاہے وہ اُردو، انگریزی یا کسی اور زبان میں ہو) کوازبر کرلیں گے۔مثال کے طور پر اگر ہم اپنی نئی نسل سے پارو، تؤخانہ، قدید، ٹکی، شال، قورتی، سرماغ، ٹونٹی، کلوش، کوسرہ اور سلسلہ، گہنہ، بالی وغیرہ کے بارے میں پوچھیں تو مجھے یقین ہے ، کہ وہ ہمارے ادا کئے گئے الفاظ کو سمجھ ہی نہیں پائیں گے۔ جبکہ اِن کے متبادل مستعمل اشیاء کے نام سے وہ بخوبی واقف ہوں گے۔ ٹھیک اِسی طرح اگر ہم آج بھی ہزارہ جات کے کسی پسماندہ علاقے کے فرد کو جدید سائنسی ٹیکنالوجی کی افادیت بتانے کی کوشش کریں، تو یقیناً وہ ہمارا مذاق اُڑائے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ اور یہ بات یاد کرکے لمبے عرصے تک مزے لوٹتا رہے گا کہ کسی زمانے میں اُن کے ہاں کوئی مخبوط الحواس ’’فدا نامی‘‘ شخص مہمان ٹھہرا تھا۔ جس کی تمام باتیں نہایت بہکی بہکی تھیں۔
اس وقت انگنت ’’متروکہ اجزائے تہذیب و ثقافت‘‘ میرے ذہن میں ابھر رہا ہے۔ سوچتا ہوں، کہیں آپ بیزار نہ ہو جائیں۔مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کہ ہم اپنی اُن ’’متروکات‘‘ کو ، جو اُس دور، اُس موسم اور اُس جغرافیہ کی اہم ضرورت تھی، آج دوبارہ اپنا سکتے ہیں؟ ہمیں معلوم ہے، کہ ہر ایک کا جواب ’’نفی‘‘ میں ہوگا۔ یہاں یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں، کہ موسمی اور جغرافیائی لحاظ سے افغانستان میں کم و بیش آج بھی وہی ’’تہذیب و ثقافت‘‘ دوام پارہی ہیں۔ جبکہ یہاں ہم اُن ’’متروکہ اجزائے تہذیب و ثقافت کو اپنانے کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے۔ البتہ صرف نمود و نمائش یا محفوظ رکھنے کی حد تک ہمیں ضرور انہیں بچانااور زندہ رکھنا چاہیے۔ افادۂ عام اجزائے تہذیب و ثقافت یہ ہماری تہذیب و ثقافت کے وہ اجزاء ہیں، جنہیں ہم نے جانے بوجھے یا انجانے میں ترک کر دیا ہے۔ میں جب بھی اِنہیں یاد کرتا ہوں، تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ’’پر کیا کریں، اب پچھتاوے کیا ہوت، جب چڑیا چگ گئیں کھیت‘‘۔ ہمارے اجداد ہجرت کرتے وقت تعدُد ’’ا جزائے تہذیب و ثقافت ‘‘ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ لیکن اُن میں سے جو اجزاء نئے ماحول سے میل نہیں رکھتے تھے، بلاشبہ اُن کا نیست ہونا لازم تھا اور ہوبھی گیا۔ جن کا حشرمتذکرہ امثلۂ بالا میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ لیکن بلاشبہ! ہمارے پرکھوں کی زنبیلوں میں یہاں پہنچنے پر بھی نہایت خوبصورت، افادۂ عام اورمتناسبہ اجزائے تہذیب و ثقافت موجودتھے۔ جو تقریباً نصف صدی سے زائدعرصے تک زوروں پر چلتے رہے ’’ مگر بدقسمتی سے بہت دیر تک نہیں‘‘۔ آخرکار یہ متناسب اجزاء بھی اپنی آخری رمق لینے پر مجبور ہوئے ، تا اینکہ رفتہ رفتہ ختم ہوگئے۔ اُن بھولے چوکے جزویات میں سے چند ایک آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔
رواداری اور احساسِ عامہ
بچپن کا دور مجھے آج بھی یاد ہے۔ اُس وقت رواداری اور احساسِ عامہ (جو ہماری تہدیب و ثقافت کی پہچان تھی) کا یہ عالم تھا، کہ ہجرت کرکے آئے بے سروساماں خاندانوں کی اتنی خدمت و پذیرائی ہوتی تھی ، جو آج ایک بھائی دوسرے سے روا ہی نہیں رکھتا۔ یقین جانیے ! اُس دور میں جن کے پاس فارغ اور لامستعمل زمینیں تھی، اپنے بے بال و پر مصاحبوں اور بھائیوں کے لئے اُس کی چاردیواری بناکر ایک آدھ کمرے، باروچی خانہ، غسلخانہ اور بیت الخلاء وغیرہ اُن کے آنے سے پیش از پیش ڈال دیتے تھے اور ساتھ میں دیگر لوازماتِ خانہ بھی رکھ چھوڑتے تھے، تاکہ آنے والے مسافرین کو کسی قسم کی سرگردانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور جن کے پاس زمینیں وغیرہ نہیں تھیں وہ اپنے مکان کے کسی کمرے کو یااپنے مکان میں کوئی اور کمرہ ڈال کر اُن کے لئے مخصوص کرتے تھے ۔ اُس حلیمانہ اور برادرانہ عمل میں کوئی میعاد مقرر ہوتی اور نہ ہی فریقین میں کوئی معاہدہ طے پاتا تھا۔ یعنی: جب تک ان کے کفیل کو روزگار میسر نہیں ہوتاتھا ، اُس وقت تک نہ صرف وہ مہمانوں کی طرح اُس گھر میں بغیر کسی واجب الوصول کے رہتے تھے بلکہ اُسی ہانڈی میں شریک بھی ہوتے جو صاحبِ خانہ اپنے لئے بناچکا ہوتا تھا۔ یہ عرصہ مہینوں ، تو کبھی کئی سالوں تک نکل جاتا تھا۔ آخر کار جب خاندان کا کفیل کسی پیشہ یا نوکری سے منسلک ہوتا تو بڑے خلوص کے ساتھ خدا حافظ کہہ کر وہاں سے رخصت ہو جاتے تھے۔ اِس موڑ پر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں، کہ اُن تعمیری کاموں میں محلے کے نوجوان اکھٹے ہوکر اپنا حصہ ڈالتے تھے۔ جن کے محبت بھرے معاوضے فقط اُنہیں ایک وقت کا کھاناجو عموماً گھی میں تلے ہوئے انڈوں کا سالن (خاگینہ) ہوا کرتا تھا، صاحبِ خانہ کی طرف سے پیش کیاجاتا تھا۔ (محلے دار نوجوانوں کے اس خوبصورت عمل کو ’’آشار‘‘ کہتے تھے، معلوم نہیں ، کہ اُس کا ہاتھ ہمارے ہاتھوں سے کب اور کہاں چھوٹا تھا)۔ پر کریں تو کیا کریں صاحب! میرا قاتل ہی میرا منصف ہے، کیا میرے حق میں فیصلہ دے گا؟ کذب و ریا کے اس دور از کار دور میں ہمارے اُن خوبصورت جزویاتِ تہذیب و ثقافت کو سلب کرنے والے مخصوص طبقہ نے ہزار دوہزار فِٹ پلاٹوں کو کروڑوں روپوں تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ہے اوربعض دوست آج ’’متروکاتِ ثقافت‘‘ کومروَجہ اقدار بنانے کی خاطر تگ و دو میں مصروف ہیں اور افسوس اس بات پر ہے، کہ اُن تمام خوبصورت اجزائے تہذیب و ثقافت کو صرف نظر رکھ کر اِنہیں صرف ہزارگی ٹوپی اور کشیدہ کاریوں میں مکمل ہزارگی تہذیب و ثقافت نظر آتی ہے۔
پس خواندگی یاد کروانا
اُس دور میں پیسے لے کر ٹیوشن پڑھانے کو ہمارے طالب علم بچے باعثِ خجالت تصور کرتے تھے، بلکہ محبت و اخلاص سے معمور و مملو اُس بے ریا زمانے میں رہ کر بڑوں کی دیکھا دیکھی ہمارے طالب علم بچے بھی نچلی جماعت کے دوستوں کو سکول میں پڑھے جانے والے اسباق یادکروانے میں ان کی مددکیا کرتے تھے اور اپنے سبق سے متعلق کسی دوسرے سینئر دوست سے مدد لیتے تھے۔ نونہال طالب علموں کے اس معصومانہ اتفاق کو ’’پس خواندگی یاد کروانا‘‘ کہتے تھے، مگر آج پرائیویٹ سکولوں ،ٹیوشن اور لینگوئج سینٹروں کی صورت ہمارا یہ روگرداں ’’کلچر ‘‘ مکمل طور پر ایک سود مند کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
شومیکنگ فیکٹری، جفت سازی یا چوؤٹ بنانے کا کارخانہ
نوجوانو! شومیکنگ یا جفت سازی کےجیسے افادۂ عامہ سے بھرپور اور سونے کی چڑیا مانند اِس اہم کلچر کو شاید ہم صدیوں تک نہ بھلا سکیں ، جو بنا کسی سرپرستی اور سہارے کے نصف صدی تک چلتا رہا، جسے ہزارگی معاشرے کا بہترین ذریعہ معاش سمجھا جانا بے جا نہ ہوگا، قریب المرگ ہے۔ ہماری یہ پروڈکٹ علمدار روڈ سے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں فروخت ہو کر بھیجی جاتی تھی، نااہلی اور چند مخصوص مفادپرستوں کی اجارہ داری کی وجہ سے ہماری یہ چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں ہمارے محلوں سے روٹھ کر یوں رخصت ہوئیں، کہ دوبارہ مڑ کر ہماری طرف دیکھا تک نہیں۔ اگر ہمارے صاحبِ ثروت حضرات مآل اندیشی سے کام لیتے ہوئے اُس میں سرمایہ کاری کرتے اور ہمارے نام نہاد نابغہ روزگار حضرات (جعلی دانشور) اُس کی راہ سے خاروں کو چن کر رہنمائی کرکے اُن محنتی کاریگروں کو مزید جدت لانے میں تشویق کرتے، تومجھے یقین ہے، کہ صدیوں تک یہ ہماری میراث بن کر رہتیں اور شاید اب تک یہ چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں یکجا ہوکر Bata اور Service کے مقابلے نفاست و اعلیٰ معیار میں زیادہ اونچا اپنا نام و مقام بنالیتیں جنہیں ہم نے اپنی دہلیز سے ہی دھتکار دیا۔ مگر بدقسمتی سے آج ہمارے دانشور حضرات اُن متروکات کی راگ الاپنے کی پرچار کرتے ہیں جن سے کسی کے نقصان کا خدشہ ہے اور نہ ہی مفاد کی اُمید! یعنی لہروں کو گننے کے مترادف۔ پھرایک ایسا دور آیا، جس نے ایک بھائی کو دوسرے سے اورجگری دوستوں کوایک دوسرے سے ناراض اور الگ کرنا شروع کردیا (ایام الیکشن) ۔ ایامِ الیکشن سے ہمارے مکانوں پرتمام سال مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رنگ برنگے جھنڈے لہرانے لگے۔ نفرتوں کے بیج بونے والے یہ جھنڈے کسی بن بلائے مہمانوں کی طرح ہمارے مکانوں سے اس طرح چمٹ گئے، کہ آج تک اُن سے ہماری جان خلاصی نہیں ہو پا رہی ۔ یہاں قدیم ہزارگی ضرب المثل بہت یاد آتی ہےکہ “جنگ بغہ ، پامال بوٹہ” ۔