میری باتیں شاید بہت لوگوں کے لیے نئی اور عجیب و غریب ہوں مگر کثیرالجہتی(Multidimensional) اسٹڈی کرنے والے آسانی سے سمجھ سکیں گے بلکہ ان کو پتہ ہوگا کہ میرا کہنے کا مقصد کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی تین ادوار یعنی شعور، تحت شعور اور لاشعور میں گذارتے ہیں۔ اس پوری زندگی میں عام انسان اپنی زندگی کا 99 فیصد حصہ اور انتہائی قلیل لوگ ہیں جو عمر کا کچھ کمتر حصہ یعنی 95 فیصد حصہ لاشعور کے تحت گذارتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ لاشعور کے تحت گذارتا ہے یعنی Autopilot Mode میں، جو بے اختیار اور جبری ہوتا ہے۔
بچوں کی تربیت دنیا کا مشکل ترین کام اس لیے ہے کہ ہماری اپنی تربیت پسماندہ معاشرے اور پسماندہ لوگوں میں ہوئی ہے تو ہمارے شعوری لیول کی حالت کیا ہوگی۔اکثر لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ سیکھنا اور سکھانا کب اور کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ پھر معاشرے میں نصابی کتابوں کے علاوہ پڑھنے کا رجحان اور رواج ہی نہیں ہے۔ اس لیے کسی کو بچوں کی تربیت کا زیادہ تجربہ بھی نہیں ہے لہٰذا پرورش کے لیے خوراک اور غذا فراہم کرنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔مگر زمانہ علم کے حوالے سے کافی بہتر ہوا ہے۔
بچوں کی تربیت ان کی پیدائش سے قبل شروع ہوتی ہے جس وقت بچہ ماں کی پیٹ میں ہوتا ہے اور چند مہینے بعد دنیا میں آنکھیں کھولنے والا ہوتا ہے۔ یعنی جب بچہ دنیا میں آنے کے آدھے رستے میں ہو تب اس کے لاشعور کی تشکیل کا آغاز ہوتا ہے۔ پیٹ میں گذرنے والی زندگی کے دوران، جو کچھ اچھا یا برا ماں پر گذرتی ہے وہ اس بچے کے لاشعور کا حصہ بنتا چلاجاتا ہے جو اس کی موت تک اس کے ساتھ ہوتا ہے۔
حمل کے دوران بچے کی پرورش کی غرض سے اس کی ماں کے ساتھ برتاؤ بہت اہم ہے۔ جس کا اثر براہِ راست بچے پر پڑتا ہے اور وہ ساری زندگی اس جبری نفسیاتی قید سے اپنے کو آزاد نہیں کرپاتا۔ پیدائش کے بعد چھ سال کی عمر تک ذہن کا سافٹ ویئر مکمل ہوجاتا ہے جس کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے مسلسل تجربات کا اجتماع اور کتب خوانی ضروری ہوتا ہے۔ مگر مشکل کام ہونے کی وجہ سے کسی کو ذہنی اپ ڈیٹ اچھا ہی نہیں لگتا، اس لیے کتاب خوانی کا رواج نہیں ہے۔ لہٰذا بچوں کی ٹھیک سے پرورش بھی نہیں ہو پاتی اور سوسائٹی کی پسماندگی کی وجہ سے مسائل بھی بڑھتے نظر آتے ہیں۔
بچوں کی سالم ذہنیت کی خاطردورانِ حمل ان کی ماؤں کا، خوراک کے ساتھ ساتھ ذہنی کیفیت کا بھی خیال رکھنا لازمی ہے۔ پرسکون ماحول مہیا کرنے کے علاوہ انہیں ہر طرح خوش رکھنے کی ہرصورت کوممکن بنانا چاہیے تاکہ بچے پر اس کے اچھے اثرات مرت ہوں۔ پیدائش کے بعد بھی اس کی ذہنی نشو و نما کے لیے ڈانٹ ڈپٹ، غصہ، لڑائی اور ایسے کام جس سے ان کے ذہن پر منفی اثرات پڑنے کا اندیشہ ہو، سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اگر ماں باپ انپڑھ بھی ہوں تو بچے کے سامنے کتاب کھول کر پڑھنے کی ایکٹنگ کرنا اچھا عمل ہے جس سے ان کی نفسیاتی تربیت ہوتی ہے۔ بچوں کے سامنے ایسا کوئی عمل نہیں کرنا چاہیے جس سے ان کی ذہنیت خراب ہونے کا اندیشہ ہو۔ خوراک میں بھی شروع دن سے ایسی تمام چیزوں اجتناب کرنا ہوگا جو صحت کے لیے ضرر رساں ہو۔ بچوں کو اپنا پورا علم منتقل کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ وہ پرانے اور نئے تجربات سے لیس ہوں۔
بچوں کو شروع ہی سے نفسیات، فلسفہ، سماجیات اور اقتصاد کی سادہ تعلیم مہیا کرنے کا بندوبست کرنا اس کی اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ جس قدر سانس لیتے ہیں اتنا ہی اپنے تجربات میں اضافہ کرنے کی خاطر مختلف شعبہ ہائے زندگی کی کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ وہ بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان کی معاشرتی اور معاشی میدانوں میں تعمیر و تشکیل میں معاونت کرسکیں۔ والدین کو معاشی اور سماجی دباؤ کو سمجھتے ہوئے اس کے اثرات کو کبھی گھر اور بچوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے اور انہیں اس دباؤ کا شکار کرنے سے بھی بچنا چاہیے۔
- بچوں کی تربیت، دنیا کا سب سے مشکل کام ۔۔۔ علی رضا منگول - 11/03/2025
- حکمت عملی/طریقِ کار ۔۔۔ علی رضا منگول - 27/12/2023
- نوش دارو بعد از مرگ سہراب ۔۔۔ علی رضا منگول - 01/12/2023