تحریر: فاطمہ ہاشمی
ترجمہ: محمد امان
جب بھی کسی گروہ پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ گروہ اپنی استطاعت اور استعداد کے مطابق اس مصیبت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ گروہ اس مصیبت کا مقابلہ زیادہ بہتر انداز میں کرتے ہیں۔ مشکلات اور مسائل کا بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کو استقامت کہتے ہیں۔ افراد اور گروہوں کے اعمال کو دیکھ کر ہی اس استقامت کو تقویت ملتی ہے۔
پچھلے کچھ سالوں سے جس ہنگامہ خیز دور سے میرا آبائی شہر کوئٹہ گزر رہا ہے اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ میں اس بات پرتحقیق کروں کہ ہزارہ برادری، جو کہ ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد میں محدود ہوچکی ہے، کیسے ان تمام مشکلات اور اس تعصب کا مقابلہ کرتی ہے جو ان کے ساتھ روا رکھا گیا۔ ہزارہ برادری کو ان دو علاقوں میں محصور کردیا گیا ہے کیونکہ حکومت کے پاس ان کو تحفظ فراہم کرنے کا اس سے بہتر حل موجود نہیں۔
تحقیق کے دوران مجھے “اسکیچ کلب” کے بارے میں پتا چلا۔ اسی دوران زیادہ تر نوجوانوں نے کہا کہ جب بھی کوئٹہ شہر کے حالات خراب ہوتے تب “اسکیچ کلب” ہی وہ واحد جگہ ہوتی جہاں جاکر وہ راحت محسوس کرتے۔ خاص طورپر ان دنوں جب کوئٹہ میں آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا۔ ان تمام واقعات اور حادثات کے اثرات اتنے شدید اور گہرے ہوتے تھے کہ کوئٹہ میں امن و امان کی صورتحال کے بارے میں ایک نوجوان کا یہ کہنا تھا
“ہم لوگ اکثر اس انتظار میں ہوتے کہ اگلا واقعہ کب رونما ہوگا۔ اور جب بھی آپ کسی سے امن کے بارے میں ان کے خیالات پوچھتے تو وہ کہتا کہ کوئٹہ میں دو حادثات یا واقعات کا درمیانی وقفہ امن کہلاتا ہے۔”
تحقیق کے دوران “اسکیچ کلب” کے بارے میں میرے تجسس میں کافی اضافہ ہوا اور جلد ہی مجھے معلوم ہوا کہ سر فاضل “اسکیچ کلب” کی نگرانی اور سرپرستی کررہے ہیں۔ سر فاضل پیشے کے اعتبار سے ایک استاد ہیں۔
اسکیچ کلب کا پس منظر
سید فاضل حسین جو کہ کوئٹہ میں فاضل موسوی یا پھر آغائی فاضل کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے 2009 میں “اسکیچ کلب” کی بنیاد رکھی۔ “اسکیچ کلب” کا مقصد معاشرے کے نوجوانوں کو ان تمام کمالات و مہارات سے آراستہ کرنا تھا جو انہوں نے اپنی فنی زندگی میں سیکھا تھا۔ بقول ساحر لدھیانوی
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
جیسے ہر خواب کو حقیقت تک پہنچانے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ویسے ہی “اسکیچ کلب” کو اس کی حالیہ شکل میں پہنچانے کے لئے کافی وقت لگا۔ آج “اسکیچ کلب” کو شہر کے ایک گوشے میں ایک ایسی جگہ ملی ہے جہاں طالب علم پہاڑوں کے خوبصورت مناظر سے محظوظ ہوتے ہیں اور وہاں بیٹھ کرنقاشی کرتے ہیں۔
فی الوقت “اسکیچ کلب” سے بیس طالب علم مستفید ہورہے ہیں جہاں سوموار سے جمعے تک کلاسز ہوتی ہیں۔ جمعے کے دن تھیوری کلاسز ہوتی ہیں جن میں طالب علم مختلف فن پاروں کے بارے میں گفتگو کرکے تنقید کا فن سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی خود اعتمادی بڑھتی ہے بلکہ کرشن چندر، غلام عباس اور احمد ندیم قاسمی جیسے ادیبوں کو پڑھ کر ان کے ادبی ذوق میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اشفاق احمد جیسے مصنفین کے مضامین کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام سرگرمیوں کے دوران فاضل موسوی صاحب طالب علموں کی ذہنی صلاحیت اور سماجی اقدار کا خاص خیال رکھتے ہیں اور فقط انہی ادیبوں اور مصنفوں کی تحاریر کا انتخاب کرتے ہیں جو طالب علموں کے لئۓ موزوں ہوں۔ ان تمام سرگرمیوں کے ذریعے فاضل موسوی صاحب اپنے طالب علموں کو سوچنے، سوال اٹھانے اور بولنے کے وہ مواقع فراہم کرتے ہیں جو ہر کسی کو ملنے چاہیے ۔
پاکستان کے تمام پروفیشنل آرٹس کالجز کوئٹہ میں موجود “اسکیچ کلب” کے بارے میں جانتے ہیں کیونکہ “اسکیچ کلب” سے پڑھے ہوئے طالب علم جہاں بھی جاتے ہیں “اسکیچ کلب” میں سیکھی گئی چیزیں اور وہ تمام تجربات اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں جو انہوں نے “اسکیچ کلب” سے حاصل کیے ہیں۔ اور اسی خود اعتمادی اور تنقیدی سوچ کی وجہ سے وہ باقی طالب علموں سے بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔
اس وقت “اسکیچ کلب” سے پڑھے ہوئے 14 آرٹسٹ بطور ڈیزائنر، آرکیٹیکٹ اور مصور، پاکستان کے مخلتف شہروں میں کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ 40 طالب علم پاکستان کے مختلف آرٹس کالجوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ صرف اسی سال “سکیچ کلب” کے 16 طالب علموں کا داخلہ پاکستان کے مختلف پروفیشنل کالجوں میں ہوا۔ پورے بلوچستان سے اتنی تعداد میں طالب علموں کا داخلہ ان کالجوں میں نہیں ہوا جتنا صرف “اسکیچ کلب” کے طالب علموں کا ہوا ہے۔
اس سے پہلے سڈنی، میلبورن اور لاس اینجلس میں “اسکیچ کلب” کی طرف سے متعدد بین الاقوامی نمائشیں ہوچکی ہیں جنہیں کافی پذیرائی ملی ہیں۔ اس پذیرائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن دنوں “اسکیچ کلب” کے منتظمین اور طالب علم کوئٹہ کے موسیٰ کالج میں ایک نمائش کی تیاری کررہے تھے انہی دنوں ہزارہ برادری کے چار بے گناہوں کو بس سے اتار کر بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ اس واقعے کے رد عمل میں “اسکیچ کلب” کے منتظمین نے ڈر جانے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کے بجائے استقامت دکھانے کو ہی بہتر سمجھا اور پہلے سے بھی زیادہ جوش و جذبے سے نمائش کا انعقاد کیا۔ اس ایک عمل سے پوری کمیونٹی کا حوصلہ بلند ہوا اور لوگوں نے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اس نمائش میں شرکت کی۔ یوں سکیچ کلب نے اس بات کو ثابت کردیا کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔
فاضل موسوی فرماتے ہیں
“میرے طالب علموں میں یہ قابلیت اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیت سے اپنے جذبات اور احساسات کو کینوس پر اتار سکیں۔ اپنے جذبات اور احساسات کو فنی تخلیقات جیسے تصاویر، پینٹنگز، مضامین، افسانہ اور ناول میں تبدیل کرنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے جس سے کتھارسس کے عمل کا آغاز ہوتا ہے اور اسی کتھارسس کو جاری رکھنے سے ہی ہم تاریخ کا حصہ بن سکتے ہیں اور اپنے ان تمام زخموں پر مرہم لگا سکتے ہیں جو وقت اور حالات نے ہمیں دیئے ہیں۔ یہی استقامت اور مزاحمت دکھانے کا بہترین طریقہ ہے۔ “
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سر فاضل موسوی کو آکسفور کی طرف سے منعقد ہونے والے انسانی حقوق کے فیسٹیول (آکسفورڈ ہیومن رائٹس فیسٹیول 2020) میں مدعو کیا جائے۔ اس سال کے فیسٹیول کا مرکزی نقطہ استقامت ہے ٰ اور ہمارے خیال میں “اسکیچ کلب” استقامت کی ایک اعلی مثال ہے۔
ان کو دعوت دینے کا مقصد لوگوں کو یہ آگاہی دینا ہے کہ کیسے آرٹس کے ذریعے انسانی حقوق کے معاملات پر بات کی جاسکتی ہے۔
اس فیسٹیول کا آغاز 2003 میں ہوا اور اس کی ابتدا آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی کے طالب علموں نے کی۔
2020 گلاس ٹینک نمائش
یہ نمائش بروکس یونیورسٹی کے گلاس ٹینک کیمپس میں ہوگی جو 3 مارچ سے 14 اپریل تک جاری رہے گی۔ نمائش میں دنیا بھر سے وہ تمام فن پارے رکھے جائیں گے جو استقامت اور مزاحمت کا پیغام دیتے ہوں۔ اسی نمائش میں سر فاضل موسوی اور ان کے طالب علموں کے فن پارے بھی موجود ہوں گے۔
“اسکیچ کلب” کی طرف سے منعقد کی گئی نمائشوں سے متعلق معلومات مندرجہ ذیل لنکس پر دستیاب ہیں۔
فنڈنگ
اس نمائش میں شرکت کرنے کے لئے جتنے اخراجات آئیں گے، ہم اس کیلئے فنڈ جمع کررہے ہیں۔ اگر آپ بھی ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کرکے ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ اگر آپ میں سے کوئی سپانسر یا اشتراک کا خواہش مند ہے تو وہ ہم سے مندرجہ ذیل لنک پر رابطہ کرسکتا ہے۔
http://gf.me/u/w453rj http://cendep.blogspot.com/2019/12/art-as-form-of-resilience-sketch-club.html