نادیہ کا کوچو اور میرا مری آباد
تحریر: سجاد حسین
“آخری لڑکی” نوبل امن انعام یافتہ نادیہ مُراد کی کتاب ہے جس کا مطالعہ ان سب لوگوں کے لیے لازمی ہے جو اقلیتی حقوق، حقوق نسواں، جنگ اور جنگوں کے دوران عورتوں کے ساتھ تشدد و زیادتی اور داعش یا طالبان جیسی دیگر انتہا پسند مذہبی تحریکوں کے مطالعے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں اس تحریر میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی کتاب بالخصوص ہزارہ کمیونٹی کے جوان سال لڑکوں اور لڑکیوں کو کیوں پڑھنی چاہیئے۔
نادیہ مُراد عراق کے ایک گاؤں “کوچو” کی رہنے والی ایک ایزدی لڑکی ہے جسے نوبل امن انعام برائے سال 2018 سے نوازا گیا۔ جن دنوں ان کے نوبل انعام جیتنے کی خبر نئی نئی تھی، انہی دنوں ڈُوک یونیورسٹی (Duke University) میں انہیں طلبا و طالبات اور اساتذہ سے گفتگو کے لیے مدعو کیا گیا۔ مجھے اچھا لگا جب انگریزی میں عبور نہ رکھنے کی وجہ سے انہوں نے اپنی مادری زبان یعنی کُردش میں گفتگو کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کی گفتگو کے دوران مجھے مزید خوشگوار حیرت یہ جان کر ہوئی کہ ان کے بہت سارے الفاظ فارسی کے تھے۔ بالخصوص اعداد و شمار اور ہندسے تمام تر فارسی میں تھے۔ یہ ان کئی وجوہات میں سے ایک وجہ تھی جس کے باعث مجھے لگا کہ ہال میں موجود دیگر طلبا کی نسبت میں نادیہ کے زیادہ قریب ہوں اور ان کے کرب کو شاید بہتر طور پر سمجھ سکتا ہوں۔
ایزدی کمیونٹی (صوتی مشابہت کے باوجود ان کا یزید ابن معاویہ یا یزیدیت سے کوئی تعلق نہیں) آٹھ سو سال پرانے مذہبی تخیل پر کاربند ہے۔ عرب، ترک اور فارس کے درمیان اس تاریخی خطّے میں آباد ہونے کی وجہ سے بہت حد تک ان کا مذہب یہودیت، عیسایئت، اسلام اور زرتشتی عقاید کا ایک ملغوبہ ہے۔ کوہ سنجار ان کی مقدس جگہ ہے اور زبان ان کی کُردش ہے جو ایک بار پھر عربی، فارسی اور ترکی کا ملغوبہ ہے۔ ان کا عقیدہ بھی تخلیق کائنات اور ہبوط آدم سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن اسلامی اور ایزدی روایات میں واضح فرق یہ ہے کہ آدم کو جنت سے نکالنے والا فرشتہ ابلیس اسلامی روایت میں وِلن قرار پاتا ہے اور گزشتہ چودہ سو سال سے مسلمان شیطان کو اپنے تمام تر گناہوں کا سر چشمہ قرار دیتے ہیں جبکہ ایزدی عقیدے میں انسان کو زمین پر آباد کرنے والا فرشتہ “طاوسی ملک” (ملک عربی میں فرشتے کو کہتے ہیں جس کا جمع ہےملائک اور طاؤس فارسی میں مور کو کہتے ہیں) ان کے نزدیک پھر بھی سب سے قابل قدر فرشتہ رہتا ہے جو انسان اور خدا کے مابین ایک رابطے کے طور پر محترم اور مقدس رہتا ہے۔ مذہبی عقاید میں اسی فرق کو مسلمان انتہا پسند اکثر ایزدی کمیونٹی کے قتل عام میں جواز بناتے رہے ہیں۔ اگرچہ کسی بھی قتل عام میں مذہب کے علاوہ کئی سیاسی، سماجی، اور معاشی عوامل بھی کارفرما رہتے ہیں۔
یہ کتاب ایک معصوم اقلیتی کمیونٹی کے درد سے بھری ہوئی ہے۔ نادیہ کے سات بھائیوں کو ایک ہی دن میں قتل کردیا گیا۔ انہیں اور ان کے خاندان کی دیگر عورتوں کو داعش وحشی دور کے جنگی غلاموں اور کنیزوں کی مانند قید کرکے مہینوں تک ریپ کرتے رہے۔ کچھ لڑکیاں وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں، جیسے کہ نادیہ خود، اور کئی دیگر، سالوں کے بعد بھی لاپتہ ہیں۔ داعش کے زیر حراست نادیہ پر کیا بیتی، یہ کتاب انہی دنوں کی کہانی ہے۔
نادیہ مُراد کا کوچو مجھے اپنے مری آباد اور ہزارہ ٹاون کی بھرپور یاد دلاتا ہے۔ وہی چھوٹی سی دنیا، وہی اپنے یار لوگ،ادھر ہی ساری رنجشیں، وہیں ساری رفاقتیں، سارے ہیروز، رول ماڈلز اور کمپٹیٹرز، ساری یاریاں دوستیاں اور گلیوں میں کھیلتے بچوں کی معصومیت، نوجوانوں کی چھوٹی چھوٹی لَو سٹوریز اور شادیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔وہی کوچو اور وہی مری آباد جہاں ہر کوئی ہر کسی کو جانتا ہے۔ عراق کے صحرا میں کوچوایسے ہی رشتوں کا ایک نخلستان ہے جیسے بلوچستانی سمندر کے بیچوں بیچ مری آباد اپنایئت بھرا ایک جزیرہ۔ جو چیز میرے لیے پریشان کن ہے وہ یہ کہ خوبیاں ہی نہیں بلکہ کمزوریاں بھی خطرناک حد تک ایک جیسی ہیں۔ اپنی اقلیتی کمیونٹی سے باہر دیگر کمیونٹیز کے ساتھ بیگانگی اور خوف کا رشتہ بھی کوچو اور مری آباد کے باشندوں میں مشترک ہے۔
کوچو میں صرف ایزدی لوگ رہتے ہیں، اپنی زبان بولتے ہیں، اپنا مذہبی عقیدہ رکھتے ہیں، آپس میں ہی شادیوں کا رواج ہے اور اپنی ہی رسموں میں محو رہتے ہیں۔ اپنوں کے ساتھ اپنایئت تو خوب ہے لیکن اگر ایک کمیونٹی اپنے ہمسایوں سے بالکل ہی بے نیاز ہو تو اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ جب عراق میں شیعہ کمیونٹی کا قتل عام ہورہا تھا تو ایزدی لوگوں نے اسے بیگانوں کی جنگ سمجھا، جب کُردوں کا قتل عام ہوا تو انھوں نے اس آگ سے بھی اپنا دامن بچائے رکھنے کی کوشش کی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے گزشتہ دہائیوں سے ہزارہ کمیونٹی کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ بیرونی چپقلشوں، سیاسی رسہ کشیوں ، ہمسایہ بلوچ اور پشتون کی ریاستی اداورں کے ساتھ کشمکش جیسے مشکل سیاسی سوالوں سے انھیں الجھنا نا ہی پڑے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرنے سے خطرے دُور ہو جاتے ہیں؟ کیا ریت میں سر دبانے سے آئی بلا ٹل جاتی ہے؟ اگر سارے کا سارے جنگل آگ کی لپیٹ میں ہو تو کیونکر یہ خواہش رکھی جاسکتی ہے کہ ہمیں باقی سے کوئی سروکار نہیں بس چمن کے بیچوں بیچ ہمارا گلدان سر سبز و شاداب رہے؟
کچھ دوست بجا طور پر یہ تنقید کر سکتے ہیں کہ میں ایک اقلیتی کمیونٹی پر بے جا سیاسی بوجھ رکھ رہا ہوں، آخر پانچ لاکھ آبادی والے ایزدی سے یہ توقع کیوں رکھی جائے کہ وہ صدام کی ڈکٹیٹرشپ، کُردوں اور شیعوں کے مسائل کے حل میں پیش پیش ہوں یا پہلے سے ستم دیدہ ہزارہ کمیونٹی آخر بلوچستان کے حقوق، پاکستان کے آئین اور جمہوریت کی بالادستی، بلوچ مسنگ پرسنز کی بازیابی یا پشتونوں کے حقوق میں توانا آواز ہو؟
ان سب دوستوں کے جواب میں اتنا کہوں گا کہ جس معاشرے میں ریاست ملک کے اندر رہنے والی مختلف لسانی اور مذہبی کمیونٹیز کے مابین افہام و تفہیم اور مشترک شناخت پیدا کرنے میں ناکام ہو، جہاں ریاست قوم سازی (نیشن بلڈنگ) کے عمل کے بجائے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہو، ان دائمی طورپر نازک صورتحال سے گزرنے والے ممالک (fragile states) میں اقلیتوں کو اپنی سیاسی، ثقافتی فلاح و بہود پر خود ہی غور کرنا ہوتا ہے۔ ریاستی پالیسیاں آخر نہ آخر تبدیل ہو سکتی ہیں لیکن آپ کے ہمسائے کہیں نہیں جانے والے۔ لہٰذا برادر اقوام اور برادر مسلکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کا سیاسی بوجھ بھی باشعور اقلیتی کمیونٹی کے ناتواں کندھوں پر ہی آ پڑتا ہے۔
ہزارہ اور ایزدی کمیونٹی کے سیاسی اور سماجی حالات میں مسلسل موازنہ کرتے رہنے کے علاوہ ایک عراقی دیہات کی اس نیم پڑھی لکھی لڑکی کی ذہانت سے میں اس وقت بہت متاثر ہوا جب کردستان کے ایک چیک پوسٹ پر ان کے ساتھ ظلم وستم کی داستان میں پیشمرگا نے غیر معمولی دلچسپی لی۔ نادیہ کی طرف سے کُردش ڈیموکریٹک پارٹی (کے ڈی پی) پر تنقید کوایک اور کرد سیاسی جماعت پٹریاٹک یونین آف کردستان (پی یو کے) نے اپنے سیاسی حریف کو نیچا دکھانے کے لیے زبردست استعمال کیا۔ نادیہ لکھتی ہے، “میں تیزی سے سیکھ رہی تھی کہ میری کہانی جسے میں تب تک اپنا انفرادی سانحہ سمجھتی تھی، کسی اور کے لیے ایک سیاسی آلہ بن سکتی ہے، بالخصوص عراق جیسے ملک میں۔ مجھے جو بھی کہنا ہے اس میں مجھے احتیاط برتنی ہوگی کیوں کہ مختلف لوگ آپ کے الفاظ میں الگ الگ معنی ڈھونڈتے ہیں، اور یہ کہ آپ کی کہانی آپ ہی کے خلاف بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے۔”
ایک ہزارہ ہونے کے ناطے ہمیں بھی سوچنا ہوگا کہ ہماری کہانی کیا ہے؟ کس کو اس کہانی سے فائدہ پہنچتا ہے اور کون ہم سے کیا سننا چاہتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا درست جواب ہر کہانی کار کو ڈھونڈنا چاہیئے۔
- ایک جائزہ: خالد حسینی کا ناول “اے تھاوزنڈ سپلینڈڈ سنز” … سجاد حسین - 17/04/2021
- میٹھی نمکو … سجاد حسین چنگیزی - 22/12/2020
- میرا جسم کس کی مرضی؟ ۔۔۔ سجاد حسین - 07/03/2020