میرا حصہ ۔۔۔ راحیلہ بتول

آج کی تحریر مذہبی رجحان رکھنے والے تمام بہنوں، بھائیوں اور دوستوں سے انتہائی معذرت کے بعد لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں۔

بچپن سے لے کر جوانی تک، سکول کے امتحانات اور پھرکالج یونیورسٹی کے پیپرز میں یہی لکھ لکھ کے ہمارا ذہن پختہ ہو گیا، کہ اسلام میں عورت کا مقام بہت ہی بلند ہے اور دیگر مذاہب کے برعکس اسلام نے عورتوں کو بھی مردوں کے برابر ہی حقوق دیئے ہیں۔ دنیا کی دیگر نصف آبادی کی طرح ہم نے بھی ان باتوں کا یقین کر لیااور یہ فرض کر بیٹھے کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں عورت کو مکمل تحفظ دی ہے۔ مگر گذشتہ سال جب اختتام کو پہنچا تو اس دوران میری زندگی نے کچھ ایسی تبدیلیاں اپنے اندر جذب کر لی تھی جو عقل اور آنکھوں پر پڑی دھول ہٹانے کا تو نہ سہی لیکن سرکانے کا موجب ضرور بنی  جس کی وجہ سے دل اور دماغ میں سوالوں کی سونامی نے ایسا طوفان برپا کر دیا جس نے برسوں پرانے عقیدے اور ایمان کے پرخچے اڑادئیے۔ ایمان کی ڈگمگاتی ناو ایسے بھنور میں آ کے پھنس گئی جہاں سے اس کا زندہ سلامت بچ نکلنا کچھ مشکل سا لگ رہا ہے۔

خیر تمہید کو مزید لمبا کیے بغیر اصل کہانی شروع کرتے ہیں جو عورت اور وراثت میں اس کے حق کے گرد گھومتی ہے۔ مسئلہ انتہائی سنگین نوعیت کا ہے، اتنا کہ اس موضوع پر بات کرنے یا بحث کرنے سے پہلے ایک عام آدمی کو لاکھوں بار اس بارے میں سوچنا پڑتا ہے، کہ کہیں کوئی مرتد نہ قرار دے؛ کافر سمجھ کر قطع تعلق نہ کر لے؛ یا توہین کا الزام لگا کر ہمارے خلاف ریلی اور جلوس نکالنا نہ شروع کر دے۔ مگر جو پچھلے سال وائرل ہوا تھا بالکل اسی طرح ہر ڈر اور خوف سے بے نیاز، میرا قلم میری مرضی۔

یوں تودین اسلام کو مکمل ضابطہ حیات ہونے کا شرف حاصل ہے، جہاں اس نے انسانی زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی مکمل رہنمائی کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اسلام میں چیدہ چیدہ اصول وراثت بھی بیان کیے ہیں، مگر ان میں کوئی خاطر خواہ، جامع اور تسلی بخش ماخذ موجود نہیں ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ: کہ جتنی بھی معلومات دستیاب ہیں ان میں موجودہ وقت و حالات کے پیش نظر کوئی تبدیلی یا جدت سرے سے آئی ہی نہیں ہے جو اس صدی اور اس صدی میں رہنے والے لوگوں کی ضروریات پوری کر سکیں۔ اس میں وہی متعصبانہ چودہ سو سال پرانا اور پدرسری نظام کے مردوں ہی کے بنائے ہوئے قانون وراثت اب تک رائج ہیں جس کی وجہ سے اب تک نجانے کتنی عورتیں شریعت کے نام پر ان کے جائز حقوق سے محروم کر دی گئی ہیں۔

قانون وراثت کو سورہ النساء کی گیارہویں آیت میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے ”اور اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر، پھر اگر لڑکیاں ہوں (اگرچہ دو سے زیادہ) تو ان کو ترکہ کی دو تہائی، اور اگر ایک لڑکی تو اسکا آدھا۔۔۔۔“۔  یعنی اسلامی اصولوں کے مطابق میری وراثت میں میرا بیٹا میری بیٹی کے برعکس دگنے حصے کا حقدار ہے۔ خیر، اس کی وضاحت میں دی جانے والی منطق شاید کچھ حد تک قابل قبول بھی ہو۔ اسی آیت میں مزید یہ حکم ہے کہ بے اولاد جوڑے میں بیوی کے انتقال کی صورت میں، شوہر اس کی آدھی جائیداد کا وارث بن جاتا ہے جبکہ شوہر کی وفات پر اس کی بیوہ کو ترکہ کا صرف ایک چوتھائی حصہ ہی ملے گا۔ بصورت دیگر اگر جوڑا صاحب اولاد ہو تو بیوہ صرف آٹھویں حصے کی حقدار ہوتی ہے۔

یہی تقسیم اہل تشیع کے ہاں مزید سخت کچھ یوں ہو جاتی ہے کہ بے اولاد بیوہ اپنے مرحوم شوہرکی غیرمنقولہ جائیداد(Immovable property) مثلا زرعی اور غیر زرعی زمینیں، مکان یا کوئی کارخانہ وغیرہ کی وارث نہیں بن سکتی۔ جبکہ بعض علماء صرف ملبے کے ایک چوتھائی حصے تک کی گنجائش ضرور دیتے ہیں۔ اب چونکہ میرا تعلق اسی مسلک سے ہے لہٰذا میرا دھیان زیادہ تر اسی نکتے پر ہی منجمد رہے گا۔

وراثت کے مسلے پر شرعی یہ تقسیم بندیاں بظاہر سننے اور پڑھنے میں جتنی آسان اور سادہ نظر آ رہی ہیں درحقیقت اتنی ہی پیچیدہ اور گھمبیر ہیں۔ ایک کڑوا سچ تویہ بھی ہے کہ مجھ سمیت بیشتر عورتیں اوّل توان تمام اصولوں سے ابھی تک نا بلد ہیں۔ دوئم، اگر انہیں کسی طرح سے ان باتوں کا پتہ چل بھی جاتا ہے، تو مذہب کے آگے بے بس ہو کے چپ سادھ لیتی ہیں۔ پر قبر کا حال تو صرف مردہ ہی جانے۔ اب فرض کر لیتے ہیں، کہ اگر کوئی شادی شدہ جوڑا چند میڈیکل وجوہات کی بناء پر بے اولاد رہ جائے اور اس پر ستم یہ کہ شوہر بھی رضائے الٰہی سے وصال کر کے اس دنیا کے تمام راز و نیاز سے بے نیاز ہو جائے۔ تو اسلامی قوانین کی رو سے اس طرح کی عورت کا کیا مستقبل ہو گا، جس پر وہ گھر تک حرام ہو گیا جہاں اس نے اپنی زندگی کی بہاریں اپنے جیون ساتھی کے ساتھ گزاری ہو اور جس کی آرائش و زیبائش پر اس نے خود اپنی ذات مٹی کر دی ہو؟ ممکنات میں سے، پہلے تو طے کردہ اصولوں کے مطابق ملبے کا چوتھائی حصہ لے اور یہاں وہاں دربدر چھت کی تلاش میں پھرتی رہے۔ یا پھردوسری صورت میں وہ دوسری شادی کے لئے کسی مناسب شوہر کا انتظام و انتخاب کرے۔ مگر اب کی بار پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پہلے اس بندے سے وصیت لکھوا کر اپنا بچا کُھچا مستقبل محفوظ بنائے۔ تیسری اور آخری صورت میں قاضی وقت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور اپنے حق کے لئے آواز بلند کرے۔ پر یہ صورت تو سب سے زیادہ خوفناک ہے۔ کیونکہ ہمارے ججوں کے فیصلے تو ملاؤں کے فتوؤں پر انحصار کرتے ہیں۔ الغرض، تینوں صورتوں میں عورت خالی ہاتھ اور ملامت ہی رہے گی۔ کیونکہ فتویٰ تو پیش از پیش صادر ہو چکا ہے، جس میں کسی بھی طرح کا ردوبدل کے ٹو پہاڑ کو سرکانے کے مترادف ہوتا ہے اور اسے سرکانے والا کہلائے گا مرتد! ارے ہاں! ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ دوسری صورت کا اطلاق صرف درمیانی عمر کی بیوہ پر ہو سکتا ہے۔ 50-55سال والی عورتیں اس سہولت سے قطعی کوئی استفادہ حاصل نہیں کر سکتی۔ مگر کہا تویہ جاتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، تو فطرت تو تقاضا کرتی ہے کہ ہر ایک عورت خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، بیوہ ہو یا سہاگن، ثمر دار ہو یا علاوہ ازیں، سبھی ایک با حفاظت، با وقار اور پر سکون زندگی گزاریں۔ نجانے یہ کونسی فطرت ہے جس میں شوہر کی موت پر عورت اپنے کھانے پینے سے لے کر چھت تک کی محتاج ہو جاتی ہے اور اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ عورت کا یا اس کے مرحوم شوہر کا خاندان اس کا سہارا اور آسرا بنیں گے تو یقینا آپ کسی سنگین غلط فہمی کا شکار ہے۔ یہاں تو شاذونادر ہی آپ کو خدا ترس لوگ نظر آئیں گے، ورنہ اکثر تو لاش خور ہی چاروں طرف منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایک عورت اپنا دفاع کیسے کرے جب اس کا آخری سہارا اس کے مذہب نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ خدارا یہ مت کہیے گا، کہ اسلام نے عورت کو دوسری اور تیسری شادیوں کا مکمل اختیار دیا ہوا ہے اور وہ اپنے ہر فیصلے میں آزاد ہے، پر حقیقت تو اس کے بر عکس ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس پدرسری سماج میں موجودہ معاشرتی دباؤ کے پیش نظر شادی اس مسئلے کا حل قطعاً نہیں ہے۔ تو آخر حل ہے کیا؟ کیا مزید کئی صدیوں تک مذہب کے نام پر ایسے ہی عورت کا استحصال ہوتا رہے گا؟ کیا چودہ سو سال پرانے اصول و ضوابط میں جدت لانا اتنا ہی ناممکن اور غیر اخلاقی فعل ہے؟ کیا سارے علماء، فقہا اور مجتہدین اجماع و اجتہاد کے ذریعے ان فرسودہ رائج الوقت اصولوں میں تبدیلی نہیں لا سکتے؟ کیا ہمارے علماء اپنی سیاست چمکانے کے ساتھ ساتھ ایسے مسائل پر اور ان کے ممکنہ حل پر روشنی نہیں ڈال سکتے؟ میری نظر میں بالکل ایسا کر سکتے ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب اس چیز کو اصلاً ایک سنگین مسئلہ تصور کیا جائے گا۔ شاید اسی دن کے لئے جون کہہ گئے۔

نہ جانے کب سے ہے آ شوب سوالوں کا مگر

سوال تو یہ ہے کہ مسئلہ کیا ہے؟

ابھی تو لوگ اسے عورت کا حتمی مقدر اور ممنوعہ موضوع سمجھ کر بحث کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں، چی جائیکہ مثبت حل کے متلاشی ہوں۔ سو، اوّل تو ان تمام اہل علم حضرات(جو رسول پاک کا لباس مبارک اوڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں) سے درخواست ہے، کہ وہ رحمتہ اللعامین کی تعلیمات کو درشت اور غیرلچکدار بنانے کی بجائے انہیں انسانی فطرت سے ہم آہنگ کرائیں اور انہی تعلیمات اطہر کی روشنی میں ایک مکمل ضابطہ حیات تشکیل دے کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کا ثبوت دیں۔ تاکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بالعموم؛ اور وراثت کے قوانین میں بالخصوص؛ ایک عورت خود کو محفوظ و مطمئن محسوس کر سکیں۔ میری آخری گذارش خاندانوں کے ان سربراہوں سے ہے کہ اپنی زندگی میں اپنی وصیت لکھوا کر رجسٹرڈ کروا لیں۔ تا کہ آپ کی غیر موجودگی میں آپ کی ناموس دربدری سے بچ جائے۔

راحیلہ بتول
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *