1۔ عبدالعلی مزاری: ہزارہ قوم کے لئے آزادی کا پیامبر
نجیب سلام (تاجیک)
مزاری دیگر رہنماؤں سے قطعی مختلف ایک درویش منش انسان تھے۔ وہ اپنے غریب ترین لوگوں کی طرح لباس پہنتے تھے اور ان کے درمیان انہی کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ ان کی فطرت ہی ایسی تھی۔ لیکن وہ اپنے لوگوں کے لئے آزادی اور عدالت طلبی کی بابت بہت پرجوش تھے اور افغانستان میں ایک اجتماعی نظام عدل کے داعی تھے۔
میں افغانستان کے سیاسی اکابرین کی شخصیت کو بہتر طور پر جاننے کے لئے اکثر ان کی تقاریر سنتا رہتاہوں۔ مزاری اپنے بیان میں نہایت بلیغ تھے وہ اپنے لوگوں کی زبان میں بات کرتے تھے اور اس میں اخلاص سے کام لیتے تھے۔ وہ افغانستان کی تاریخ سے کامل واقف تھے، بطور خاص اپنے لوگوں پرکابل کے فاشست حکمرانوں کے مظالم سے بخوبی آگاہ تھے، اسی لئے ”ہزارہ“ ان کی آخری حد تھے۔ وہ اپنے لوگوں کے لئے ”برداری و برابری“ کی بنیاد پر مساوی حقوق چاہتے تھے یعنی وہ ہزارہ کے لئے کسی سے برتری کے طلبگار تھے اور نہ ہی ہزارہ کو کمتر ماننا انہیں قبول تھا۔ وہ ہر موقع پر بے باکی اور جرات کے ساتھ اپنے لوگوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرتے۔ وہ واشگاف الفاظ میں کہتے تھے کہ: ”ہزارہ قوم کو مساوی حقوق دیئے بغیر کوئی نظام نہ تو پائیدار ہے اور نہ انہیں قبول ہے۔“
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ: ”جو قومیں اپنی آزادی اور حقوق کے بارے میں جدوجہد نہیں کرتیں وہ مردے ہیں۔“
نوے کی دہائی کے سول وار کے دوران جو چیز مزاری کو دیگر لیڈروں سے ممتاز کرتی تھی وہ ان کی طرف سے تمام قوموں کے لئے یکساں حقوق پر مبنی فیڈرل نظام کا مطالبہ تھا، جسے وقت نے درست ثابت کردیا۔ لیکن بدقسمتی سے دیگر مجاہدین رہنما اجتماعی نظام عدل کے برخلاف، اسلامی خلافت کے موہوم تصور کے پیچھے بھاگتے رہے جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
مزاری کے مخالفین چاہے کچھ بھی کہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نے اپنے لوگوں کو ایک اعلیٰ مقام دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور انہیں اپنے آپ پر اعتماد کرنے کی ہمت دی۔ دراصل یہی وہ منفرد وجوہ ہیں جس کی وجہ سے مزاری ہی ہزارہ قوم کے لئے ”آزادی کا پیامبر“ ثابت ہوتا ہے۔
آج ہزارہ قوم کا سیاسی شعور و آگاہی اسی فقیر منش اور آزادی پسند انسان کی مرہون منت ہے۔ اسی مرد آہن کی وجہ سے آج ان کے فرزندوں میں آزادی کی تڑپ دیگر تمام قوموں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس عظیم انسان کو ڈھیروں سلام۔
2۔ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے
کریم حمزہ
1992 میں بابہ مزاری کی کابل آمد اور ان کی طرف سے ہزارہ قومی حقوق پر ایک واضح لائحہ عمل کے سامنے آنے پر جب دشمنوں کی طرف سے طبل جنگ بجائے جانے لگے تو قومندان شفیع دیوانہ، بصیر دیوانہ، قنبر لنگ اور حاجی احمدی کے نام سامنے آنے لگے۔ ہم ہزارہ لکھاری اکثر آپس میں کہتے تھے کہ آخر ان کی کیا ضرورت ہے، یہ نہ تو دنیا کے حالات سے باخبر ہیں اور نہ ہی سیاست کے رموز سمجھتے ہیں، حالانکہ ہم بھول گئے تھے کہ دنیا جہاں کے وحشی جنگجو اس وقت کابل کے دروازے پر دستک دے رہے تھے جو مذہبی، نسلی اور لسانی حوالے سے ہزارہ قوم کے خون کے پیاسے تھے۔ جن کی جان و مال اور عزت و ناموس ان کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔
یہ صحیح ہے کہ یہ قومندان زیادہ پڑے لکھے نہیں تھے اور ان کے جنگجو سپاہی بھی مثالی ڈسپلن کے حامل نہیں تھے لیکن یہ جری لوگ، ان خونخوار دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور بابہ شہید مزاری کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنے وقت میں حق وانصاف طلبی اور افغانستان کے اندر تمام حلقوں کے لئے مساویانہ حقوق کے داعی بن گئے تھے اور حریت و آزادی کی پیکرتھے۔ یہ بیباک آزادی پسند لوگ جو بظاہر سیاسی داؤ وپیج سے ناآگاہ تھے، لیکن وہ یہ ادراک رکھتے تھے کہ وحشی دشمنوں کے مقابلے میں اپنی قوم کی کس طرح حفاظت کرنی ہے۔ انہوں نے تاریخ کے ان حساس لمحات میں اپنی جان جھونکوں میں ڈال کر اپنی ڈیوٹی بخوبی نبھائی ورنہ وحشی دشمن، ارزگان کی خونین تاریخ دہرانے کے لئے غرب کابل کے آس پاس جمع ہوچکے تھے۔
قومندان شفیع، بصیر، قنبر اور حاجی احمدی جیسے سرفروشوں نے اپنے فرائض بخوبی نبھائے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے سیاسی اکابرین جو تاریخ سے باخبر تھےاور سیاسی داؤپیچ کے ہنر کو بھی جانتے تھے ، نے ان ہیروں کی قدر نہ کی۔ ان میں سے کئی ایک دشمنوں کے ہاتھوں جبکہ باقی بابہ شہید مزاری کے بعد انہی ناخرد و جاہ طلب سیاسی اکابرین کے ہاتھوں قتل ہوئے جو کہ بہت ہی افسوسناک ہے۔
- عبدالعلی مزاری: ہزارہ قوم کے لئے آزادی کا پیامبر ۔۔۔ ترجمہ:اسحاق محمدی - 11/03/2025
- ہزارہ فٹبال کلب کوئٹہ (پاکستان) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 23/02/2025
- ایک نیک شگون ۔۔۔ اسحاق محمدی - 13/02/2025