آج کل پاکستان میں میڈیا کی حد تک آٹا چوروں، چینی چوروں اور بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی مہم پورے زوروں پر ہے لیکن بقول معروف اس جال میں صرف چھوٹی مچھلیاں ہی پھنستی ہیں جبکہ بڑی مچھلیاں جال توڑ کر صاف نکل جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک کریک ڈاؤن جنرل مشرف کے ابتدائی دور میں بھی کیا گیا تھا۔ جس کے بعد کوئٹہ شہر کی حد تک سرکاری دفاتر اورعام نادہندہ بجلی صارفین کے خلاف واپڈا نے زیرو ٹالیرینس کی پالیسی اپناتے ہوئے سو دو سو بقایاجات پر بھی کنکشن کاٹنے کا عمل شروع کردیا۔ اسی شور وغُل اور کریک ڈاؤن کے دوران ایک دن میرا ایک پولیس آفیسر دوست میرے آفس آیا۔ اس دن وہ کافی خوش اور پُرجوش نظر آرہا تھا۔ سلام دعا کے بعد میں نے اس کی اس خوشی کی وجہ پوچھی تو موصوف واپڈا والوں کو ایک موٹی گالی دے کر گویا ہوا کہ “کل سالے واپڈا والوں نے ہمارے ایس ایس پی صاحب (محکمہ پولیس کوئٹہ) کے بنگلہ کا بجلی کنکشن کاٹ دیا تھا۔ جب اس کی اطلاع صاحب کو ہوئی تو انھوں نے اسی وقت کوئٹہ کے تمام تھانوں کے ڈی ایس پیز کو بذات خود کال کرکے حکم دیا کہ اپنے اپنے علاقوں میں فوراً ناکے لگا کر واپڈا کی ہر قسم کی گاڑیوں کو تھانوں میں بند کردو اور ان کی چابیاں میرے آفس میں جمع کرادو، ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر کسی آفیسر نے اس میں سستی دکھائی تو ایس ایچ او سمیت سب کوکڈھے لائن لگا دوں گا۔ صاحب کے اس حکم نے تمام تھانوں میں کھلبلی مچا دی، سب تھانے باقی تمام ضروری کام ایک طرف رکھ کر اپنے علاقےکے مختلف چوراہوں میں ناکے لگا کر واپڈاکی گاڑیوں کے شکار میں جت گئے۔ جس کا نتیجہ اگلے تین، چار گھنٹوں میں اس طرح نکلا کہ واپڈا کی نوے پجانوے فیصد گاڑیاں تھانوں میں اور چابیاں ایس ایس پی آفس میں پہنچا دی گئیں، خواہ وہ گاڑیاں سرکاری کام پر تھیں، صاحب کے بچوں کو سکول یا کالج پہنچا رہی تھیں یا بیگم صاحبان خریداری کے مشن پر تھیں۔ دوست نے مزید بتایا کہ پہلے واپڈا انتظامیہ حیران و پریشان تھی کہ ان کے ساتھ یہ کیا اور کیوں ہو رہا ہے۔ آگے چل کر جب ان کو حقیقت کا پتہ چل گیا تو سب سے پہلے انہوں نے صاحب کا کنکشن لگا دیا اور پھر معافی مانگنے صاحب کی تلاش میں لگ گئے جو جان بوجھ کر روپوش ہوگیا تھا۔ بڑی تگ ودو کے بعد وہ صاحب تک پہنچے معافی مانگی اور آئندہ کسی پولیس والے کے خلاف کاروائی نہ کرنے کی قسم کھائی تب جاکے ان کو معافی ملی اور ان کی گاڑیاں واگزار کی گیئں”۔
قارئین کرام!
اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرنا ہے کہ پاکستان میں “جسکی لاٹھی اسکی بھینس” کا قانون پورے آب و تاب سے نافذ العمل ہے۔ اب جب کلاشینکوف بردار پولیس کے پاس اتنا پاور ہے تو دھشکہ بردار ملیشا پوش وردی اور سب سے بڑھ کر توپ اور ٹینک بردار خاکی وردی والوں کے پاس کتنے پاور ہیں، اس کا اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ یاد رہے کہ کنڈے لگانے میں بھی انہی کے افراد زیادہ تر ملوث ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح عام صارفین کی پکڑدھکڑ، کنکشن کاٹنے یا جرمانہ کرنے سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع عبث ہے جس کی نشاندہی جنرل مشرف ہی کے دور کی ایک رپورٹ میں کردی گئی تھی کہ عام صارفین کی بجلی کی چوری 5 فیصد سے زیادہ نہیں، باقی 95 فیصد چوری میں طاقت ور حلقے شریک جرم ہیں، جن میں متذکرہ بالا اداروں کے ساتھ بڑے زمین دار (وڈیرے اور جاگیردار) اور بڑے کارخانے دار شامل ہیں ۔ یہی حال آٹا اور چینی چوروں کا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 25 تا 30 ہزار پک اپ گاڑیاں (ڈاٹسن) روزانہ بنیادوں پر ایرانی پیٹرول و ڈیزل وغیرہ پاکستان سمگل کرنے اور یہاں سے گندم، آٹا، چینی اور کھاد وغیرہ ایران اور افغانستان سمگل کرنے میں براہ راست ملوث ہیں، ہزاروں موٹر سائیکلیں ان کے علاوہ ہیں۔
- سانحہ 6 جولائی 1985 ۔۔۔ اسحاق محمدی - 08/11/2024
- محمدعالم مصباح (تیسری اور آخری قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 05/09/2024
- عالم مصباح (1967- 1994). دوسری قسط۔۔۔ تحریر۔ اسحاق محمدی - 27/08/2024