صارف۔۔۔ تحریر: اسحاق محمدی

گزشتہ صدی ستر کی دہائی میں جب خلیجی ممالک میں تیل اور گیس کی برآمدات کی برکت سے دولت کی ریل پیل ہوئی اور وہاں بڑے پیمانے پر ترقیاتی و تعمیراتی کاموں کا آغاز ہوا، تو ان ممالک سے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے اچھے روابط کی وجہ پاکستانی محنت کش افراد دیگر ممالک سے پہلے وہاں پہنچنے لگے اور پھر ترسیلات زر کا سلسلہ بھی سب سے پہلے پاکستان میں پہنچنے لگا۔ لیکن بدقسمتی سے ایک طرف اجتماعی شعور میں کمی اور دوسری طرف سرکاری اداروں میں کرپشن اور نااہل لوگوں کے باعث یہ قیمتی زر مبادلہ مال غنیمت کی طرح مکانات پکا کرنے، زیورات، رنگین ٹی وی، وی سی آر خریدنے، غلط اور غیرضروری رسوم و رواجوں اور شاہانہ خوش خوراکیوں کی نذر ہوتا گیا۔(یعنی اُن لاکھوں محنت کشوں کے پیچھے بچ جانے والے پورے کا پورا خاندان صرف صارف بن گئے۔) جس کا نتیجہ آج اس انداز میں ہم سب کے سامنے ہے کہ تیس تیس سال چالیس چالیس سال تک سخت ترین ماحول میں محنت و مشقت کرکے لاکھوں درہم و دینار گھر بھیجنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آج بڑھاپے میں نان شبینہ کے محتاج ہیں۔ جبکہ دوسری طرف انڈیا کے محنت کش جو سالوں بعد خلیجی ممالک پہنچے اور ہماری نسبت قدرے دیر سے پیسے واپس بھیجنے لگے۔ لیکن وہاں کے اداروں میں اہل اور دور اندیش لوگوں کی وجہ سے وہ قیمتی زرمبادلہ فضول کی شاہ خرچیوں میں برباد ہونے سے بچ گیا۔ انہوں نے اس زر مبادلہ کو مختلف شعبوں (بطور خاص شعبہ آئی ٹی) میں لگانے کی ٹھوس منصوبہ بندی کیں۔ بڑی محنت سے ان محنت کشوں کے پیچھے بچ جانے والے خاندانوں کو ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی۔ جس کا نتیجہ آج دنیا کے سامنے کچھ یوں ہے کہ صرف آئی ٹی کے شعبہ میں انڈیا کی اندرونی اور بیرونی آمدنی 245 ارب ڈالر سالانہ ہے اور 50 لاکھ سے زائد لوگ براہ راست اس شعبہ سے سالانہ لاکھوں کروڑوں کما رہے ہیں، لاکھوں دیگر انڈین جو مغربی ممالک میں اسی شعبے سے وابستہ ہیں وہ اس سے ماورا ہیں۔

قارئین کرام! درج بالا امثلہ بیان کرنے کا میرا مقصد یہ ہے، کہ بدقسمتی سے ہم پاکستانی ہزارہ گذشتہ 30 سالوں سے وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو دیگر پاکستانی 50 سالوں سے دہراتے آرہے ہیں۔ ہم مغربی ممالک میں جفاکش اپنے پیاروں کے خون پسینے کی کمائی کو اسی بے دردی کے ساتھ آئی فونز، آئی پیڈز، 60، 70 انچ کے ٹیلی ویژنوں کی بے جا خریداریوں اور غلط غیر ضروری رسوم و رواجوں پر ضائع کرنے کے جرم کا مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہم عجیب تضادات کے شکار ہیں؛ ایک طرف 70، 80 فیصد شرح خواندگی کے دعویدار ہیں، جبکہ دوسری طرف ہم عقل و منطق کے برعکس اپنا عمل دکھا رہے ہیں۔(یعنی ہماری کمیونٹی فی الوقت دیگر برادر قومیتوں کے لئے صرف صارف/Consumer بنی ہوئی ہیں۔) یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ اگرچہ ہمارے وہ محنت کش حضرات(باپ، بھائی یا بیٹا) خلیجی ممالک بشمول ایران کے ہاں سے کافی بہتر ماحول میں کام کررہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان جفاکشوں کا 99 فیصد جسمانی مشقت بھرے کاموں جیسے اوبر یا ٹیکسی چلانا، کھیتی باڑی کرنا یا کسی کارخانے میں بحیثیت مزدور وابستہ ہیں۔ یہاں امریکہ میں میرے کئی جاننے والے دوست ہیں جو ہر مہینہ ہزار تا پندرہ سو ڈالر گھر والوں کو بھیجنے پر مجبور ہیں جو تمام کے تمام فضولیات پر صرف ہو رہے ہیں۔

ایک قریبی نوجوان دوست جو ہر ماہ پندرہ سو ڈالر تک گھر بھیجنے پر مجبور ہے، نے انکشاف کیا کہ: ”میرے گھر میں ماں باپ کے علاوہ ایک بھائی ہے۔“ میں نے کہا: ”انہیں اتنی خطیر رقم کی ضرورت کیا آن پڑی ہے۔“ اس نے جواب میں کہا کہ: ”وہاں ہر مہینہ ان کے ہاں دو تین مہمانیاں یا پھر کوئی نذر ونیاز معمول کا حصہ ہے۔“ یاد رہے، کہ مذکورہ نوجوان ہفتہ کے چھ دن ایک کارخانے میں آٹھ آٹھ گھنٹے کام کے علاوہ اوور ٹائم لگانے پر بھی مجبور ہے۔ تاکہ کوئٹہ کے اخراجات کے علاوہ، وہ یہاں اپنے آپ کو بھی سنبھالا دے سکے۔ میری نظر میں کم و بیش دیگر محنت کشوں کی صورتحال بھی اس نوجوان سے مختلف نہیں۔ یہ صریحاً ظلم ہے، ناانصافی ہے اور وسائل کا ضیاع ہے۔

یہ تلخ حقیقت ہمارے پیش نظر ہمہ وقت رہنی چاہیے، کہ بہت سارے عوامل کے باعث بلوچستان میں ہماری نئی نسل کے لئے روزگار کے مواقع ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ آج ہمارے ہزاروں نوجوان بیروزگاری کے باعث تھڑوں یا پھر بھنڈار کی محفلوں میں روزانہ کے حساب سے گھنٹوں اپنا اور صرف اپنا وقت اپنے ہیں مستقبل کو برباد کر رہے ہیں۔ درجنوں نونہال ”ماما اسپنج دود کنوم“ کرکے اپنے مستقبل کو دھویں میں اڑا رہے ہیں۔ ایسی گھمبیر صورتحال میں روزگار کے مواقع ہمیں خود پیدا کرنے ہوں گے، جس میں ٹیکنیکل تعلیم کے لئے قدم اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔ پھر اس کے بعد سمال انڈسٹریز لگانے کا مرحلہ آتا ہے، جس میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کی بھی ضرورت نہیں۔ ہمیں بہت پہلے اس قسم کے عملی اقدامات اٹھانا چاہیے تھا، اب مزید تاخیر تباہی اور یقینی تباہی ہے۔ پاکستان میں کافی کامیاب کمیونیٹیز جیسے میمن، شیخ، پارسی، بوہرہ، اسماعیلی وغیرہ کی مثالیں موجود ہیں، جوصرف صارف نہیں، بلکہ پیسے کو بلاک کرنے یا فضولیات پر صرف کرنے کی بجائے اسے صنعت و تجارت میں لگا کر اپنے اپنے کمیونیٹیز کے لاکھوں بیروزگاروں کو روزگار فراہم کر رہی ہیں اور خود بھی کروڑوں کما رہی ہیں۔ ان کمیونیٹیز کا لیول بہت بلند ہے، مگر خوش قسمتی سے بہت سے دیگر کمونیٹیز کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں، جو سمال انڈسٹریز کے میدان میں کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔

حال ہی میں شاید فیصل آباد کے ایک محلہ کی ڈاکومینٹری دیکھنے کا موقع ملا۔ جہاں ہر مکان کے نچلی پورشن میں چھوٹے چھوٹے ورکشاپس قائم ہیں اور اسی فیملی کے تمام خاندان، البتہ طالبعلم سکول کالج اوقات کے بعد اپنی اپنی فرصت میں روزمرہ عام استعمال کی اشیا بناکر بے حد خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ وہاں بیروزگاری کا نام و نشان نہیں تھا، بلکہ محلے کے باہر سے بھی سینکڑوں افراد کو روزگار کے مواقع دے رہے تھے۔ ماہانہ لاکھوں ڈالر ز کے زرمبادلہ سے ہمارے سینکڑوں گھرانے اس طرح کے نیک کام کرسکنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ عقل و منطق اور شعور سے کام لے کر، انا اور سیال داری کو اایک طرف رکھیں۔ ہمارے درجنوں این جی اوز، قومی اور سیاسی اداروں کی این جانب حقائق پر مجرمانہ خاموشی یا چشم پوشی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اب جب ہمارے نوجوانوں میں صلاحیت بھی موجود ہے، ان کو روزگار کی بھی اشد ضرورت ہے اور قیمتی زرمبادلہ کی ترسیلات بھی دوسری طرف جاری ہیں، تو پھر مشکل کہاں پر ہے؟ یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے اس کارخیر میں لوکل انویسٹرز بھی اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ صرف کنزیومر یا صارف کی حیثیت معاشروں میں اس ٹڈی دل(یلغار ملخ) جیسا ہے، جو پورے کھیت کھلایانوں کو چٹ تو کرجاتے ہیں، لیکن بالآخر ہلاکت بھی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ جب بڑی بڑی سلطنتیں محض و محض صارف ہونے کے باعث روئے زمین سے مٹ گئیں، تو پھر ایسے میں ہمارے چھوٹے سے معاشرے کی کیا اوقات بچ جاتی ہے؟ کبھی رومن سلطنت نصف دنیا پر قائم تھی اور ہر طرف دولت کی ریل پیل تھی۔ لیکن وہ صرف کنزیومر تھی اس لئے مٹ گئی۔ اسپین چند صدی پہلے تک امریکہ اور لاطینی امریکہ سے کھربوں ڈالر سالانہ لوٹ کر لے جا رہا تھا اور وہ بھی سلطنت روم کی طرح اپنے دور کا سپرپاور تھا۔ لیکن کیا تھا؟ وہ بھی ایک کنزیومر ریاست تھا، اس لئے وہ بھی اپنی تمام دولت اپنی ہی عیاشیوں پر خرچتے تھے۔ اب اسپین کی صورتحال ایسی ہے، کہ گذشتہ ایک صدی سے وہ یورپ کا ایک غریب سا ملک بن کر رہ گیا ہے، جو خیرات پر گزارا کررہا ہے۔

آگاہ باش! خدا نخواستہ اگر ہمارا معاشرہ بھی زوال پذیر ہوا، تو کوئی بھی نہیں بچے گا، سب کو تباہ و برباد کر دے گا۔

من آنچہ شرط بلاغ است با تو میگویم

تو خواہ از سخن ام پند گیر یا کہ ملال

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *