پروفیسر ناظرحسین  (1943-2022) ۔۔۔ اسحاق محمدی

شادروان پروفیسر ناظرحسین نے 23 فروری 1943ء کو کوئٹہ کے ایک ہزارہ گھرانے میں مرزاحسین کے ہاں آنکھ کھولی۔ انکے خاندان کا تعلق تاریخی اورزگان زمین سے تھا، جہاں سے ان کے اجداد انیسویں صدی کے اواخیر میں اس وقت کے امیر کابل، عبدالرحمان کی ہزارہ نسل کشی  اور ہزارہ زرخیز زمینیں افغان قبائل میں تقسیم کرنے کی پالیسی سے بچنے کے لئے دیگر ہزاروں اجڑے ہزارہ خاندانوں کے ساتھ برٹش بلوچستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان کے والد پہلے پہل ہزارہ پائینر میں شامل ہوئے  لیکن 1933ء میں ہزارہ پائینر کے خاتمے کے بعد بلوچستان پولیس میں بھرتی ہوئے۔ پروفیسر صاحب کے مطابق اس دور میں انگریز راج کے باوجود ہزارہ سماج پر روایتی ملاوں کی گرفت مظبوط تھی اور وہ  ہمیشہ جدید تعلیم کی مخالفت کرتے تھے۔ وہ ٹان جدید سکولوں میں پڑھنے والوں کو طنزاً کریشٹان (کرسچن) پکارتے تھے( نوربن ٹی وی انٹرویو)۔ لیکن پروفیسر صاحب کی خوش قسمتی کہ ان کے والد صاحب، جدید علوم کی اہمیت و افادیت کو بخوبی جانتے تھے، اس لئے وہ اسلامیہ ہائی سکول میں داخل کرائے گئے جہاں سے انہوں نے 1960ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اس وقت کے واحد کالج یعنی سائنس کالج میں داخلہ لے لیا۔ 1964ء میں سائنس کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد پہلے انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے 1967ء میں بی ایڈ اور بعد از آں پنجاب یونیورسٹی سے 1969ء میں فارسی ادب میں ماسٹر کی سند حاصل کی۔ یاد رہے کہ اسی دوران وہ 1965ء میں بحیثیت استاد، درس و تدریس کے شعبے سے بھی باقاعدہ منسلک ہوگئے تھے اور انکی پہلی پوسٹنگ ڈیرہ بگٹی میں ہوئی تھی۔ وہ کچھ عرصہ یزدان خان سکول میں بھی خدمات انجام دیتے رہے جو اس وقت صوفی نورمحمد اسٹریٹ میں ایک کرائے کے مکان میں قائم تھا۔

ایم اے فارسی کرنے کے بعد 1970ء میں انہوں نے بحیثیت فارسی لیکچررکالج جوائن کرلیا اور ان کی پہلی پوسٹنگ ژوب میں ہوئی۔ بعد از آں  1988ء تک وہ مختلف مواقع پر بلوچستان کے مختلف کالجز میں پڑھاتے رہے۔ ستمبر 1988ء میں ان کی پوسٹنگ ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ میں ہوئی۔ مارچ 1990ء میں جنرل محمد موسیٰ خان کالج بننے کے بعد بحیثیت  بانی پرنسپل تعینات ہوئے۔ آپ  نے اس نئی درسگاہ میں نہ صرف اکیڈمک  معیار کو بہتر سے بہتر بنانے اور طلباء کے اندر نظم و ضبط لانے کی قابل قدر کوششیں کیں بلکہ اس نئی درسگاہ کی تعمیر و توسیع کے لئے بھی بھی شبانہ روز محنت کی جو عام طور پر ایک پرنسپل کا کام نہیں ہوتا۔ اتفاقاً اسی دوران میں بھی ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے علاقے کے تعلیمی مسائل کے حل کے ضمن میں کافی فعال تھا۔ چنانچہ میرا آمنا سامنا پروفیسر صاحب سے اکثر ڈائرکٹریٹ یا سکریٹیریٹ میں اس طرح ہوتا کہ ان کے بغل میں فائلیں ہوتیں اور بڑے صاحبان کے دفاتر ہوتے۔ آپ کی انہی انتھک اور مخلصانہ کوششوں کے باعث بہت جلد جنرل محمد موسی خان کالج کا شمار صوبہ بلوچستان کے ٹاپ کالجز میں ہونے لگا۔ پروفیسر صاحب کی انہی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان  نے 1994ء میں انہیں شعبہ تعلیم کے سب سے بڑے قومی ایوارڈ “اعزاز فضیلت” سے نوازا جبکہ حکومت بلوچستان نے 2010ء میں انہی تعلیمی خدمات کے صلے میں انہیں “امیرمحمد امیر ایکسیلینس” ایوارڈ کا مستحق قرار دیا۔

اجتماعی طور پر پروفیسر نوجوانی کے دور سے ہی کافی متحرک رہے۔ آپ تاریخی لحاظ سے پاکستانی ہزارہ قوم کی پہلی جبکہ  مجموعی طور پر ہزارہ قوم کی دوسری تنظیم “انجمن فلاح و بہبود ہزارہ” کے بانی اراکین میں شامل تھے جس کی تشکیل 1963ء میں ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل عراق میں “الشباب الھزارہ” (ہزارہ یوتھ) کے نام سے پہلی تنظیم بنی تھی۔ انجمن فلاح و بہبود ہزارہ کے بنیادی اغراض و مقاصد میں قوم کے اندر فرسودہ رسوم و رواج کے خلاف جدجہد کرنا اور جدید علوم کی طرف ہزارہ نئی نسل کو راغب کرنا تھا۔ پہلے مقصد کے حصول میں کتنی کامیابی ملی اس کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن پاکستانی ہزارہ معاشرے میں جدید تعیلم کے فروغ میں انجمن نے کلیدی رول ادا کیا۔ انجمن کے رضا کاروں نے ایک طرف والدین کو جدید تعلیم کی افادیت سے آگاہی کی مہم چلا کر انہیں اپنے بچوں کو جدید درسگاہوں میں داخل کروانے کی ترغیب دلائی جو ملاؤں کے اس منفی پروپیگنڈوں کے زیر اثر ایسا کرنے سے، اس وجہ سے کتراتے تھے کہ ان کے بچے کریشٹان بن جائیں گے۔ دوسری طرف چونکہ  اس وقت بلوچستان کے اندر کوئی ٹیکنیکل درسگاہ (انجنئرنگ و میڈیکل) نہیں تھی اور صوبہ کے طالبعلموں کو زیادہ تر کراچی جانا پڑتا تھا جن کے اضافی اخراجات دینے ہوتے تھے۔ چونکہ اس وقت غربت کا زمانہ تھا اور ہزارہ ہونہار طالبعلم محض غربت کی وجہ سے مزید تعیلم سے محروم رہ جاتے تھے، لہذا انجمن نے اپنی مدد آپ کے تحت تعلیمی وظائف دینے کا سلسلہ شروع کردیا جن سے درجنوں غریب ہزارہ طلباء فیضیاب ہوگئے اور سبھی آگے چل کر ڈاکٹر اور انجنئیر بن گئے۔ یاد رہے کہ لوکل ہزارہ  ملاؤں کی مخالفت کی وجہ سے ہزارہ بچیوں کو کوئٹہ شہر کے کالجز میں داخلے کی جرات نہیں تھی چی جائیکہ شہر سے باہر (انٹرویو ڈاکٹر زیب النساء نیز مارشل شربت علی چنگیزی)۔

 یہ المیہ  الگ ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ سب حضرات آگے چل کر کامیاب ڈاکٹر اور انجنئربن گئے اور ان میں سے کچھ اعلیٰ سرکاری عہدوں تک  بھی پہنچے لیکن اس اجتماعی کار خیر کو آگے بڑھانے میں کبھی اپنا حصہ ڈالنے کی زحمت نہ صرف گوارا نہیں کی بلکہ اُلٹا بنگلہ بنانے، نئی گاڑیاں، رنگین ٹی وی، وی سی آر خریدنے میں مگن ہوکر معاشرہ کے بگاڑ کا باعث بنے، جبکہ محض ایک آدھ نے  ہی انفرادی طور پر کچھ ہاتھ پیر چلانے کی ہمت دکھائی۔

1970ء میں اندرونی اختلافات کی بنا پر انجمن فلاح و بہبود ہزارہ کو منحل کردیا گیا اور بقول پروفیسر صاحب، اس کے بچے کچھے اثاثہ جات نئے تشکیل شدہ ادارہ “تنظیم نسل نو ہزارہ مغل” کے حوالے کردیے گئے۔  (ماہنامہ پیغام تنظیم شمارہ 29)۔

شادروان پروفیسر چونکہ اجتماعی سوچ اور عمل کے قائل تھے لہذا انجمن فلاح و بہبود ہزارہ کے منحل ہونے کے بعد انہوں نے نئی تشکیل شدہ تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور تمام اونچ نیچ کے باوجود آخری سانس تک اس نیشنلسٹ تنظیم سے وابسطہ رہے۔ نومبر 1995ء میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے “تعمیر نسل نو” ہائی سکول میں کچھ عرصہ پرنسپل کے طوپر خدمات انجام د یں اور وہاں سے فراغت کے بعد گھر میں عیش و آرام کی ریٹائرڈ زندگی گذارنے کے بجائے انہوں نے فکری طور پر نئی ہزارہ نسل کی رہنمائی کا بیڑہ اُٹھایا۔ وہ ہر لینگویج، کمپیوٹر سینٹر یا ادبی تنظیموں کی محفلوں میں جاکر ان کو جدید علم و دانش کے حصول کی ترغیب دیتے اور حالات سے مایوس نہ ہونے کی تلقین کرتے۔ پاکستان میں ہزارہ نسل کشی بارے میں انکا نقطہ نظر واضح تھا اور وہ یہ کہ در اصل اس طرح کے دہشتگرد حملوں اور کاروائیوں سے دشمن ہمارے حوصلے پست کرنا چاہتے ہیں، انہیں کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دینا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ وہ پوری قوم کو بطور خاص نئی نسل کو حوصلہ بلند رکھنے کی تلقین کرتے اور پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کا حوصلہ دیتے رہتے تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاؤن میں شاید ہی ایسا کوئی سینٹر یا مرکز بچا ہو جہاں شادروان پروفیسر ناظرحسین ایک یا ایک سے زائد بار نہ گئے ہوں۔ میں یہ دعوا اس بنیاد پر کررہا ہوں کہ اسی دوران مجھے بھی بکثرت دعوتی کارڈ زیادہ تر بغرض شرکت ملتے رہتے تھے جن میں اکثر پروفیسر صاحب بطور مہمان خصوصی، کی اسپیکر یا صدر مجلس مدعو نظر آتے تھے۔

میری شناسائی پروفیسر صاحب سے گذشتہ صدی کی اسی کی دھائی کے اوائل میں ڈاکٹر علی شریعتی کے افکار پر مبنی ہفتہ وار کلاسز سے ہوئی جو تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کے ہاں لگتی تھی۔ وہ علی شریعتی کی کتاب “اسلام شناسی” کے فارسی مندرجات پڑھ کر آسان ہزارہ گی زبان میں اس کی تشریح کرتے اور سیشن کے آخر میں حاضرین کے سوالات کے جوابات دیتے۔ اگرچہ بظاہر یہ ایک سادہ اور بے ضرر علمی و فکری کاوش تھی لیکن چونکہ ایران میں، خمینی صاحب کے زیر قیادت ایک شدت پسند اسلامی انقلاب آیا ہوا تھا اور نئے انقلابیوں کی نظر میں شریعتی ازم، کفر کے مساوی تھا، اسی طرح  یہاں کوئٹہ میں بھی اس شدت پسند انقلاب کے حامیوں کی نظر میں یہ کلاسز اور بطور خاص اس کو چلانے والے  کفار سے کم نہیں تھے۔ لہذا یہ عناصر شادروان پروفیسر کے خلاف زہرافشانی پر اتر آتے تھے جن کا اظہار وہ کبھی کبھار کلاس میں بھی کرتے ۔  لیکن نظریاتی اور اجتماعی مفادات پر یقین رکھنے والے پروفیسر ناظرحسین پر ان منفی ہتھکنڈوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور ایک طویل مدت تک یہ کلاسز چلتی رہیں۔ شادروان عالم مصباح اورمیں تقریباً بلا ناغہ ان کی ہفتہ وار کلاس میں حصۃ لیتے تھے۔ ذاتی حیثیت سے مجھ پر ان کلاسز کا براہ راست اثر یہ ہوا کہ علی شریعتی کی دیگر کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید ایرانی اسکالرز جیسے مہدی بازرگان، جلال الدین فارسی، مرتضیٰ مطہری وغیرہ کی کتابوں کو پڑھنے کے مواقع ملے۔ نیز انہی کلاسز کی بدولت مصباح، میں، زمان دہقانزادہ اور آگے چل کر ڈاکٹر رحیم چنگیزی ایک طرح سے پروفیسر صاحب کے حلقہ خاص میں شامل ہوگئے جو آخر تک برقرار رہا۔ ہم عیدین پر پروفیسر صاحب کے ہاں فرض سمجھ  کر حاضری دیتے یا جب کسی علمی موضوع پر ان کی رائے جاننے کی ضرورت ہوتی تب بھی جاتے اور گھنٹوں حالات حاضرہ سمیت مختلف موضوعات پر ان کی عالمانہ گفتگو سے فیضیاب ہوتے۔

پاکستانی ہزارہ قوم کی تاریخ میں زیادہ بڑی مشہور شخصیات سپورٹس یا پھر آرمی پس منظر رکھنے والوں کے درمیان سے ظہور پذیر ہوئی ہیں، شاد روان پروفیسر ناظرحسین، شادروان حسن فولادی اور ڈاکٹر زیب النساء سلطان پور کا تعلق ان چند گنی چنی شخصیات میں ہیں جن کی شہرت، علم و دانش کے شعبے سے ہیں۔ ہزارہ قوم کا یہ تابندہ ستارہ 30 اکتوبر 2022ء کو ایک طرح سے اپنا قومی فریضہ مکمل کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے  ہم سے رخصت ہوا، لیکن ان کی یادیں اور رہنمائی کی باتیں تا دیر ان کے قدردانوں اور نئی نسل میں زندہ رہیں گی

روح اش شاد   

اس مضمون کی تیاری میں جناب مرزا حسین آزاد کے تعاون کا بے حد شکریہ      

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *