گھر بار چھوڑ کر یہاں آنا اتنا آسان نہیں تھا اُس وقت جس کرب سے ہم گزر رہے تھے وہ میں بیان بھی نہیں کرسکتا۔ اپنی پوری زندگی ہم نے تکلیفوں اور مصیبتوں میں گزار دی۔ اب یہی دعا ہے کہ ہماری نئی نسل کوئٹہ میں اپنی جوانی سکون سے گزارے اور وہ ہماری طرح دربدر نا ہو بلکہ اپنے ہر وہ خواب پورے کرے جس کی وہ تمنا رکھتی ہے۔ ہمارے والد صاحب اکثر ہمیں اپنے پاس بٹھا کر پرانے وقتوں کی یاد تازہ کیا کرتے تھے۔ مگر قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا خوبصورت شہر بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی نظر ہوگیا اور پھر قتل و غارت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول تھا۔ اس خوف کے عالم میں لوگوں نے اپنے پیاروں کہ ساتھ پرامن زندگی کی تلاش میں دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنا بہتر سمجھا، مگر دوسرے ممالک کی طرف سفر کرنا بھی آسان نہ تھا۔ کچھ لوگ یخ بستہ پہاڑوں میں اپنی جان سےگئے تو کچھ کشتیوں میں جاتے ہوئے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اور جو رہ گئے وہ ظلم سہتے رہے اور حالات کا مقابلہ کرتے رہے ۔
ہم سڑکوں پر نعرہ لگاتے رہے، احتجاج کرتے رہے اور دھرنہ دیتے رہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور آخر “”کیوں”” ؟ یہ سلسلہ کبھی رکے گا بھی یا نہیں ؟ بدقسمتی سے اُس وقت اندرونی حالات اس قدر اُلجھ گئے تھے کہ کچھ سوچنے اور کوئی راستہ تلاش کرنے کے بجائے ہم آپس میں ہی الجھ پڑے۔ سوشل میڈیا پر بھی جتنےمنہ اتنی باتیں سننے کو مل رہی تھیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ جہاں آگ لگتی ہے تپش بھی وہی محسوس ہوتی ہے۔ اسی افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مذہبی پارٹی کو جنازوں پر لانچ کیا گیا۔ پیٹ بھر کر ساری رات گہری نیند سونے والے کس طرح خود کو شہیدوں کا وارث بناکر کرسی اور کسی کی آشیرباد سے سیاست کے میدان ہلچل مچاتے رہے۔ پہلے سے معاشی طور پر کمزور کمیونٹی جن کا شہر کے کاروبار میں دس فیصد بھی حصہ نہیں تھا بڑھتی ہوئی دہشت اور خوف کی وجہ سے وہ کاروبار بھی بند ہوتے گئے اور پوری آبادی کو آہستہ آہستہ ایک پنجرے میں محصور کردیا گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس دو کلو میٹر کے محدودعلاقے میں سانس لینے کی بھی اجازت لینی ہوگی۔
ہماری جانوں کو خطرات لاحق ہونے کی وجہ سے باقی اقوام سے ہمیں الگ کردیا گیا۔ پنجرے میں رہتے رہتے انسان کی سوچ بدل ہی جاتی ہے اس لئے ہم اندرونی طور پر کئی قسم کے مسائل کا شکار ہوگئے۔ کیوں کہ کاروبار کے دروازے بند، تعلیمی اداروں اور کھیل کے میدانوں سے دور رہ کر اب ہماری نوجوان نسل تنہائی اور فرسٹریشن کا شکار ہوکر مثبت سرگرمیوں کے بجائے منفی سرگرمیوں کی طرف راغب ہونے لگی تھی ۔ ان حالات میں قومی سیاسی پارٹی سے امید کی جارہی تھی کے کامیابی کے بعد اس تباہ حال ملبے کی نئے سرے تعمیر کرے گی اور معاشرے میں پیدا ہونے والے مسائل کو دوسروں سے بہتر انداز میں حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا جس کی اس معاشرے کو ضرورت تھی۔ چونکہ نعرہ لگوانے والوں کے پاس” کیوں” کا جواب تھا اور نہ قوم کو بحران سے نکالنے کا کوئی واضح پلان۔ اس لیے مایوسی پھیلتی گئی۔
آج ہمارا معاشرہ جہاں کھڑا ہے اس پر مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر والد صاحب حیات ہوتے تو میں انہیں ضرور بتاتا کہ ان بیس بائیس سالوں میں جنازے دفنانے دفناتے ہماری جوانیاں اور خواب سبھی دفن ہوگئے جس ظلم و ستم کی وجہ سے ہجرت کرنے پر آپ مجبور ہوئے تھے اب آپ کی نئی نسل بھی ایک نئی امید ایک نئی زندگی کی تلاش میں یہاں سے بہت دور ہجرت کرگئی ہے جہاں وہ بغیر کسی خوف کے اپنا خواب پورا کر سکے گی۔ ہم خدا کی زمین پر ان کی مخلوق کے ہاتھوں ظلم و ستم سہہ کر بڑے ہوئے۔ شاید یہ دنیا کا دستور ہے کہ کمزور قوموں کو جینے کا کوئی حق نہیں ہوتا، انھیں مرنا ہی ہوتا ہے۔