گھوسٹ تالابیں … اسحاق محمدی

 
ایک پڑھی لکھی قوم کی حیثیت سے یہ ہمارے لئے لمحہ فکر ہونا چاہیے کہ گزشتہ مختلف ادوار میں بیت المال کے خطیر ترقیاتی فنڈز سے تعمیر ہونے والی عمارتوں پر یا تو مافیاز قابض ہیں یا وہ بند پڑی ہیں۔ اب اس فہرست میں سابقہ حلقہ ایم پی اے آغارضا کے دور میں تعمیر شدہ بلوچستان یونیورسٹی علمدار روڈ کیمپس، آبنوشی کے تین تالاب اور ہزارہ ٹاؤن میں پورے تیس کمروں پر مشتمل ایک سکول کا بھی اضافہ ہوا ہے، یوں کل ملا کر عوامی مفاد کی 9 تکمیل و تعمیر اسکیمیں اس وقت غیرفعال ہیں (ممکن ہے کہ مزید بھی ہوں جو میرے علم میں نہیں) جائے تعجب یہ ہے خواندہ اور باشعور ہونے کے تمام تر دعوؤں کے باوجود اس پر کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہورہی۔ پروگریسیواکیڈمک فورم کے دوستوں کی کوششوں سے ہزارہ عیدگاہ میں بند لائبریری کی واگذاری کے بعد سے ان کی طرف سے بھی خاموشی ہے۔
 
بہرحال میری اس تحریر کا فوکس مہردار پہاڑی سلسلوں پر تعمیر شدہ آبنوشی کے وہ تین تالاب ہیں جو اگر استعمال میں لائے جائیں تو علاقہ کے تینوں حلقوں میں پانی کی قلت دور ہوجائے گی۔ ان میں سے ایک ٹیونے آباد میں، دوسرا پائپ ہوائی کے قریب، جبکہ تیسرا محلہ ہاشمی سے متصل کوہ کاسی پر واقع ہے۔ اس موضوع پر میں نے اپنے حالیہ سفر کوئٹہ  کے دوران کئی ذی ربط افراد اور سوشل ایکٹیوسٹس سے گفتگو بھی کی اور ابتدائی معلومات لینے کے بعد ذی ربط ذمہ داران سے بات کرنے کی کوشش بھی کی۔ معلومات تک رسیدگی کے لئے موجودہ ایم پی اے و صوبائی وزیرعبدالخالق ہزارہ صاحب سے براہ راست بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔ تاہم ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ایچ ڈی پی کے ایک اہم عہدیدار اور حلقہ 14 کے سابق کونسلر بوستان علی کشتمند سے اس ضمن میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ کشتمند صاحب کے مطابق درج ذیل وجوہات کی بنا ان تالابوں کو فعال کرکے زیر استعمال لانا ممکن نہیں:
 
1۔ ان تالابوں کا معاملہ نیب کے زیر تفتیش ہے۔
2۔ تعمیر کے بعد بروقت مناسب دیکھ بھال(ترائی) نہ ہونے اور عدم توجہی کے باعث ان میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
3۔ ملحقہ علاقوں میں پانی کی سپلائی کا نظام نیچے سے اوپر کی طرف یعنی باٹم ٹو ٹاپ ہے لہٰذا تکنیکی لحاظ سے قابل عمل نہیں۔
 
کشتمند صاحب کا موقف جاننے کے بعد میں سردارحمید ہزارہ سے ملا، جو اس پراجیکٹ کے انجینئر ہیں اور مندرجہ بالا ایشوز کی روشنی میں ان کا موقف جاننا چاہا۔ ان کی طرف سے مندرجہ ذیل جوابات آئے:
 
1۔ اگر ان تالابوں کا معاملہ نیب کے پاس ہے بھی تو اس کا تعلق براہ راست اس وقت کے ایم پی اے آغارضا سے ہے ان تالابوں سے نہیں یہ عوامی مفاد کی اسکیمیں ہیں جنہیں جب چاہے فنکشنل کیا جاسکتا ہے۔
2۔ تعمیراتی لحاظ سے جو بھی کمی و کاستی ہیں انہیں دور کرنا ٹھیکیدار کی ذمہ داری ہے اور ٹھیکیدار اس پر پہلے سے راضی ہے۔
3۔ تکنیکی لحاظ سے واٹر سپلائی کے موجودہ نظام (باٹم ٹو ٹاپ) کو بالعکس کرنا؛ یعنی ٹاپ ٹو باٹم کرنا زیادہ مشکل نہیں، محکمہ واسا کے انجینئرز یہ کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔
 
قارئین کرام!
 
گویا مسلہ صاف اور واضح ہے کہ آبنوشی کے ان تینوں تالابوں کو فنکشنل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اب یہ موجودہ ایم پی اے عبدالخالق ہزارہ صاحب کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان تالابوں کو فی الفور فنکشل کرنے کی طرف توجہ دیں۔
 
یقین جانیے، کہ ان تالابوں کے فنکشنل ہونے سے علاقہ کے تینوں حلقوں میں پانی کی کمی دور ہوجائے گی اور گرمیوں کے دوران بوند بوند پانی کے لئے ترسے عوام بطور خاص عورتوں اور بچوں کو آئے روز سڑکوں پر دھرنا دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
 
آخر میں اس بدعت کی طرف توجہ دینا ضروری ہے جو سابقہ حلقہ ایم پی اے جان علی چنگیزی کے دور سے شروع ہوئی۔ جس کے تحت نو منتخب حلقہ ایم پی اے سابقہ ایم پی ایز کے ادھورے ترقیاتی اسکیموں کو مکمل کرنے پر توجہ تو بہت دور کی بات؛ تکمیل و تعمیر اور ان کو فنکشنل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جاتی۔ حالانکہ ان ترقیاتی اسکیموں پر بیت المال یعنی: عوامی ٹیکس کے بھاری پیسے لگے ہیں۔(یہ کسی کی ذاتی جیب یا خمس و زکات کے پیسے نہیں) اس بدعت کے پیچھے چھپے مقاصد سے سبھی واقف ہیں جسے کسی اور موقع کے لئے رکھتے ہیں۔ فی الحال ان تینوں تالابوں کو فعال کرنا یا فنکشنل بنانا انتہائی اہم ہے، جن سے بلا شک و تردید سینکڑوں گھرانے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان تالابوں کے رب و جوار میں رہائش رکھنے والے مکین بھی ان ہیروئنچیوں کے شر سے نجات پائیں گے، جنہوں نے اب ان تالابوں کواپنا مستقل ٹھکانا بنا رکھا ہے۔
اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *