مہذب قومیں اپنی قومی ترجیحات کا تعین قومی مفادات کے تحت کرتی ہیں جو طویل المدت اور مختصرالمدت بنیادوں پر محیط ہوتی ہیں۔ عام طور پر ملکی سطح پر قومی ترجیحات کا تعین حکمران اپنی سوچ و فکر اور علم و تجربات یا پھر اہل علم و دانش حلقوں کی مشاورت سے کرتے ہیں۔ اب اگر حکمران عالم و عاقل اور بالغ نظر ہو تو یہ قوم و ملک کے لئے ترقی و خوشحالی کا ضامن؛ جبکہ اس کے برعکس بے تدبیر، خود غرض اور مفاد پرست حکمران تباہی، بربادی، بھوک اور افلاس کے باعث بنتے ہیں۔ اسے چند مثالوں سے مزید واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
الف: قرون وسطیٰ میں جب یورپ پر پاپائے اعظم کے ماتحت چرچ کی مطلق العنان مذہبی حکمرانی تھی تب دنیا کو آخرت پر قربان کرنے کی پالیسی کو ان کی ترجیحات میں اوّلیت حاصل تھی۔ لہٰذا انہوں نے پورے یورپ کو جنت کے حصول کی آگ میں ایسے جھونک دیا کہ یہ دنیا بیچارے عام لوگوں کے لئے جہنم بن گئی۔ روزافزوں بد سے بدتر حالات سے جب لوگوں کے صبرکا پیمانہ لبریز ہونے لگا تو حکمران مذہبی طبقہ نے اندرونی گھمبیر حالات سے لوگوں کی توجہ بٹانے کے لئے مقدس صلیبی جنگوں کا آغاز کردیا۔ مذہبی وعظوں (تبلیغات) کے زور پر لاکھوں مجاہدین/Knights بناکر انہیں ایک خود ساختہ مقدس سرزمین(بیت المقدس/یروشلم) کی فتح اور بعد از اں اس کی حفاظت کے مشن پر لگا دیا، تاکہ خود ان کا اپنا دنیاوی اقتدار برقرار رہے۔ ان بدترین حالات میں یورپ کے دانشوروں نے نشاۃ ثانیہ/Renaissance یعنی احیائے علوم کی تحریک چلانے کا نہایت مشکل بیڑا اٹھایا۔ لاکھوں کی تعداد میں مرد و زن اس راہ میں کٹ مرے، جل بھن گئے اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں، لیکن بالآخر اُس مذہبی مطلق العنانیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہوئے۔ اب نئے یورپ کے نئے حکمرانوں نے اپنی قومی ترجیحات، انسانی برابری، جمہوری سوچ اور علم و ٹیکنالوجی کے حصول پر رکھیں اور بہت جلد ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے دنیا کی حکمرانی سنبھالی۔ جبکہ اب وہ ستاروں سے آگے کی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ب: اب مزید قریب آتے ہیں۔ 1970ء میں دولخت ہونے کے باوجود پاکستان، ذوالفقارعلی بھٹو کے جمہوری دور میں بہتر قومی ترجیحات کے باعث ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ ایسے میں ایک بنیاد پرست فوجی آمر(جنرل ضیاء) نے جمہوریت پر شبخون مارکر نئی قومی ترجیحات اپنائیں جس میں جہادی کلچر سرفہرست تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہزاروں دینی مدارس بنائے گئے جن میں مختلف حربوں یعنی مذہبی وعظ و تبلیغات اور مادی ترغیبات کے زور پر لاکھوں ”طالبان“ کی اس طرح مغزشوئی/Brainwashing کرائی گئی کہ انہیں سوائے جہاد(مقدس جنگ) اور مجاہد/Knight بننے کے سوا نہ تو کوئی خواہش ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا کام کرنے کا سلیقہ۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے جس کا منتج ہم بالخصوص اندرون پاکستان اور ہمسایہ ملک افغانستان میں کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ یہی حال ایک اور ہمسایہ ملک ایران کا بھی ہے جو شاہ ایران کے دور میں تمام تر عیوب کے ساتھ، مشرقی وسطیٰ کا سب سے خوشحال ملک اور خلیج فارس کا ”پولیس مین“ کہلاتا تھا۔ لیکن انقلاب کے بعد مولویوں کی غیر عاقلانہ اور میٹافزیکل ترجیحات کے باعث اب وہاں فقر و تنگ دستی کا دور دورہ ہےاور اب وہاں سے تیل اور گیس کی بجائے فاطمیون، زنبیون اور حشدالشعبی وغیرہ جیسے مجاہدین/Knights برآمد کیے جارہے ہیں۔ لازم ہے انجام گلستاں صرف برا نہیں، بلکہ بہت ہی برا ہونے جا رہا ہے……بس اس وقت کا انتظار ہے۔
قارئین کرام!
قومی مفاد اور اس کی ترجیحات پر یہ چند مثالیں دینے کا مقصد اس موضوع کی انتہائی کلیدی اہمیت اور قوموں کے عروج و زوال پراس کے اثرات کو بیان کرنا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ملکی سطح کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس کے اثرات نچلی سطح کی کمیونیٹیز تک بھی جا پہنچتے ہیں۔ مثلاً: ایک چھوٹی اقلیت ہوتے ہوئے پاکستانی ہزارہ اگرچہ پورے ملک کی ”قومی ترجیحات“ پر اثر انداز تو نہیں ہوسکتے، تاہم وہ کئی دیگر کامیاب پاکستانی کمیونیٹیز(جیسے: اسماعیلی/آغا خانی، بوہرہ، خوجہ اور میمن وغیرہ) کی طرز پر ایسی ”ترجیحات“ مرتب کرسکتے ہیں جو ارضی حقائق اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں، جس پر عمل کرکے وہ اپنے آپ کو موجودہ اجتماعی بحران سے نکال کر، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ اندریں بابت میری ناقص رائے میں، ہماری قومی ترجیحات درج ذیل ہونی چاہیے:
1: تعلیم
الف: اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں، کہ جدید تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی و پیشرفت کا تصور بھی نہیں کرسکتی، کیونکہ علم کی روشنی ہی نہ صرف جہالت اور تاریکی کے خلاف ایک موثر ہتھیار ہے، بلکہ جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے لوگوں میں یہ رجحان بکثرت پایا جاتا ہے کہ تعلیم و تعلم کو صرف روایتی روزگار کے حصول کے طورپر دیکھتے آرہے ہیں، جوکہ سرے سے نادرست ہے۔ سب سے پہلے اس عمومی ذہنیت کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ یعنی ”علم بمعنای روشنی ہونا چاہیے، نہ کہ وسیلہ روزگار۔“ خوش قسمتی سے کوئٹہ میں ہمارے دونوں حلقوں میں سرکاری اور نجی سطح پر حصول علم کے لئے بنیادی ڈھانچہ، سہولیات اور لوگوں میں حصول علم کی تڑپ موجود ہے، جن سے ہم کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔(اس موضوع پر مفصل لکھنے کا ارادہ ہے) بس اسے وقت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں منتخب عوامی نمائندوں کا کردار کلیدی ہے۔
ب: میرٹ کی پامالی، رشوت ستانی، اقربا پروری اور نسلی، لسانی و مذہبی تعصبات اپنی جگہ، لیکن ایک بات طے ہے کہ روایتی نصابی تعلیم حصول روزگار کے لئے ناکافی ہے۔ لہٰذا معمول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل تعلیم کو متعارف کرانا بے حد ضروری ہے اور اس کے لئے ہمارے دونوں حلقوں میں بقدر کافی انفراسٹرکچرز موجود ہیں۔
2: سرکاری نوکریوں پر انحصار ختم کرنا
بد قسمتی سے پچھلی ایک صدی سے زائد عرصے کے دوران ہمارے لوگوں کی اکثریت کا انحصارزیادہ تر سرکاری نوکریوں پر رہا ہے، جو فی الوقت درج بالا وجوہات کی بنا پر کلی طورپر بندش کے قریب ہے۔ لہٰذا ہمیں روزگار کے نئے مواقع تلاشنے ہوں گے۔ پاکستان میں ایسی کیمونیٹیز کی مثالیں بھی موجود ہیں جنہیں کبھی نوکری کی ضرورت نہیں رہی۔
3: نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا
گذشتہ دو عشروں کی دہشتگردی کے دوران جہاں ایک طرف ہمارے ہزاروں لوگ بیرون ممالک پناہ لینے پر مجبور ہوئے (جوکہ بہ جائے خود ایک بڑا سماجی نقصان ہے)، وہاں دوسری طرف زرمبادلہ کی صورت میں ایک بڑی رقم مسلسل آ بھی رہی ہیں۔ بدقسمتی سے آج تک ہمارے لوگ اس طاقتور مرکزی اقتصادی ٹول کو سرمایہ کاری میں لگانے، اس سے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور مزید سرمایہ حاصل کرنے کے بجائے اسے مکانات پکا کرنے اور زیورات اور گاڑیوں وغیرہ پر لگا کر منجمد کر دیتے ہیں جوکہ ایک غلطی ہی نہیں، بلکہ بہت بڑی خیانت ہے۔ یاد رہے، کہ ہماری یہی غلطی ہمارے پاکستانی ہم وطن پہلے ہی خلیجی ممالک سے آنے والی بڑی بڑی رقوم کے ساتھ کھلواڑ کرکے کرچکے ہیں لہٰذا آج پچھتا رہے ہیں۔ جبکہ پڑوسی ملک انڈیا انہی زرمبادلہ سے کئی سیکٹرز(بالخصوص آئی ٹی) میں کامیاب سرمایہ کاری کرکے اس کی طاقت دنیا کو دکھا چکا ہے۔ آج انڈیا کے صرف آئی ٹی سیکٹر کا حجم 350 ارب ڈالر ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اپنے ملک میں روزگار کے کتنے مواقع پیدا کر چکے ہیں اور کتنے بھارتی کروڑپتی اور ارب پتی بن چکے ہیں۔ نیز آئی ٹی پروفیشنلز میں چین کے بعد انڈیا ہی کا نمبر آتا ہے جن کی مانگ اس وقت پوری دنیا میں ہے۔ یہ نہ تو انہونی ہے اور نہ ہی کوئی معجزہ! صرف ”سرمائے“ کا صحیح استعمال ہے، جو ہمارے لوگ بھی بخوبی کرسکتے ہیں۔
4- سپورٹس
اس میں کوئی کلام نہیں کہ سپورٹس کا جوش و جنون ہمارے نوجوانوں کے خون میں شامل ہے۔ کم وسائل کے باوجود شہر، صوبہ، ملک اور بین الاقوامی سطح پر ہمارے کھلاڑیوں کی کارکردگی ہمیشہ سے شاندار رہی ہے۔ اب اسے سنجیدہ لینے اور مزید پروفیشنل بنانے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے سپورٹس کے میدان میں بھی ہمارے دونوں حلقوں میں ضرورت کے مطابق انفراسٹرکچرز موجود ہیں۔ فقط انہیں قبضہ مافیا سے چھڑا کر اچھے منتظمین کے حوالے کرنے کی ضرورت ہے۔ سپورٹس کے میدان سے دولت، شہرت اور صحت سبھی ملتی ہیں۔
5: غیر ضروری اخراجات میں کمی لانا
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں شادی بیاہ، فاتحہ خوانی اور خیرات ونذرات وغیرہ پر بہت بھاری رقوم خرچ ہوتی ہیں اور ان بے جا اخراجات میں بجائے کمی کے روزافزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اندریں بابت ہنگامی طور پر اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں فلاحی تنظیموں سمیت علماء و ذاکرین، مذہبی انجمنیں اور بزرگان قوم خوش اسلوبی سے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آج کے نفسانفسی دور میں، چونکہ لوگوں کے پاس فلاحی و رفاہی کاموں کے لئے وقت نہیں، چنانچہ مضمون کی طوالت کو ملحوظ رکھ کر سوسائٹی کے اہل علم و دانش افراد سے گذارش ہے کہ آگے آکر اس موضوع پر اپنی آرا سے آگاہ کریں، مزید سیکٹرز کی نشاندہی کریں اور خاص طورپرقابل عمل منصوبوں پر تجاویز دیں کیونکہ:
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
- سانحہ 6 جولائی 1985 ۔۔۔ اسحاق محمدی - 08/11/2024
- محمدعالم مصباح (تیسری اور آخری قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 05/09/2024
- عالم مصباح (1967- 1994). دوسری قسط۔۔۔ تحریر۔ اسحاق محمدی - 27/08/2024