فکر و عمل کا جدلیاتی رشتہ ۔۔۔ علی رضا منگول

٭

میں ہمیشہ پڑھتا رہتا ہوں اور پڑھنے سے مراد کتاب پڑھنا ہی نہیں بلکہ حالات، دوستوں اور ارد گرد کے لوگوں اور سوسائٹی کو بھی پڑھتا رہتا ہوں۔

سوسائٹی صرف مری آباد, کوئٹہ یا بلوچستان یا پھر پاکستانی سوسائٹی نہیں ہوتی بلکہ انٹرنیشنل سوسائٹی ہی اصل میں ہماری سوسائٹی ہوتی ہے۔ اپنی سوسائٹی کو جس قدر ہم وسعت میں پڑھیں گے ہماری نگاہیں اسی قدر دور دیکھنے کے قابل ہوں گی۔ البتہ ہمارے ملک میں تو میڈیا پر سنسر شپ ہی نہیں بلکہ ہمارا میڈیا Engineered ہے اور عوام کے ذہنوں پر وہی محدود ماحول جانتے بوجھتے مہیا اور مسلط کی جاتی ہے جس کی Growth سے  اقتدار کے فاتحین و قابضین کو کوئی پریشانی اور خطرہ نہ ہو۔

عمومی طور پر میڈیا کو اخبارات، برقی میڈیا /ٹیلی ویژن، فلم، اسٹیج، رسالے اور ریڈیو کے طور پر ہی بیان کیا اور سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، مسجد کا ممبر، سیاسی جلسے اور احتجاجی مظاہرے ہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا جہان کی دستیاب ویڈیوز لیکچرز اور لاتعداد کتابیں بھی میڈیا کا حصہ ہیں۔ حکمران طبقے عوام کو سدھائے ہوئے بندروں کی مانند ایک ہی رُخ میں ہانکنے کے لئے نصاب کی تشکیل میں بھی اپنے مفادات کے تحفظ کا خیال رکھتے ہیں اور ایسا مواد شامل کرنے سے گریز کرتے ہیں جو ان کے لئے نقصان دہ ہوں۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے؟

یہ عمل قابل بحث ہے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ ریاستیں بالعموم مگر بالخصوص نام نہاد تیسری دنیا کے ممالک جن میں پاکستان اور ہندوستان بھی شامل ہیں اپنے عوام کو ان کی طے شدہ معلومات مہیا کرکے عوامی سوچ کو محدود رکھنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں، مگر اس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ سرمایہ داری اپنے ارتقاء کی انتہا کو پہنچ چکی ہے، جس کا مطلب زوال کا آغاز ہے۔ اس زوال میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے منافع کو برقرار رکھنے اور زیادہ سے زیادہ اس میں اضافہ کی خواہش نے انفارمیشن کو بے لگام قوت عطا کردی ہے۔ جس کے تحت Servival of the Fitist جو ایک Myth ہے اور اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، پر عمل پیرا قوتیں ایک دوسرے کو پچھاڑ کر بظاہر اپنی بقاء کا تحفظ کر رہی ہیں مگر اس تضاد میں وہ ایک دوسرے کے منافق چہروں سے نقاب اُتار کر عوام اور انسانوں کو اپنا اصل روپ دکھا رہی ہیں۔

پاکستان میں اقلیتوں اور دیگر عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بہت حد تک درست اور کسی حد تک مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرنے کی ذمہ داری بھارتی میڈیا نے سنبھال رکھی ہے اور ہندوستان کے کسانوں اور مزدوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور جارحیت کو پاکستانی میڈیا عوام کے شعور کا حصہ بنا رہا ہے۔ اس طریق کار پر تقریباً دنیا کی تمام پوری منافع خور کمیونٹی عمل پیرا ہے جس سے دنیا بھر میں عوامی شعورپر گہرے نقوش مرتب ہورہے ہیں۔ اس طرح سوچنے اور سمجھنے کے الگ الگ انداز میں بھی یکسانیت پیدا ہورہی ہے اور مختلف ممالک اور دنیا میں انسانوں خصوصاً مظلوم و محکوم محنت کش انسانوں کی ایک مشترکہ سوچ جنم لے رہی ہے جو اس دنیا کے نقشے کو بدلنے کا باعث بن سکتی ہے۔ موجودہ وقت تک ایسی سوچ کو مقتدر قوتیں خاطر میں ہی نہیں لارہیں کیونکہ کھائی کے کنارے کھڑا شخص مدلل گفتگو نہیں کرتا۔ سرمایہ داری کے رکھوالوں کو اس وقت اپنی جان اور گرتے ہوئے منافع کے لالے پڑے ہیں۔ لہٰذا اس طرف ان کا دھیان منتقل ہونا آسان نہیں اور جب ایسا ہوگا تو بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ زوال کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اقتصاد یا سیاست میں زوال کے آثار ہیں بلکہ پورا انسانی معاشرہ اپنے تمام شعبوں حتیٰ کہ ثقافت اور فطرت کی بھی تخریب کا باعث بن رہا ہے۔ آخری تجزیے میں یہ حالت بہت زیادہ دیر چلنے والی نہیں ہے کیونکہ انسانوں نے ہمیشہ اپنی حالت کو بہتر بنانے کی خاطر اپنے حالات میں شعوری مداخلت کی ہے اور وہ اب بھی ایسا ہی کرنے والے ہیں۔

لہٰذا برآمد نتائج کی رُو سے یہ بات واضح ہے کہ سرمایہ داری کا مستقبل تاریک ہوچکا ہے اور اگر انسانوں اور محنت کشوں نے دیر کردی تو پھر اس کا خمیازہ بہت بڑی تباہی کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گا۔ محنت کشوں کو اپنی بقاء کی جنگ لڑنے اور مستقبل میں کم سے کم نقصان کے پیش نظر اس وقت سماج میں شعوری مداخلت کے ذریعے اسے من مرضی شکل و ترتیب دینے کے لئے لیڈرشپ کے فقدان کو ختم کرکے ایک نئے سماج کی تعمیر کا بیڑہ اُٹھانا ہے۔

سچے جذبوں کی قسم، جیت محنت کش طبقے کی ہوگی۔

علی رضا منگول

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *