ایک نوحہ جو ہزارگی میں نہیں لکھا جا سکا ۔۔۔ سلمان حیدر

ایک نوحہ جو ہزارگی میں نہیں لکھا جا سکا
 
*
ہمیں شہر کے دو کونوں پر
قید خانوں میں پیدا کیا گیا
جن کے باہر بندوقیں خاکی وردی پہنے ٹہلتی تھیں
ہمیں آزادی کا خواب دکھایا گیا
ان آوارہ کتوں سے ڈراتے ہوئے
جنہیں ان دونوں کونوں کے بیچ بھوکنے کی آزادی تھی
ہم دوسرے قید خانے میں پیدا ہونے والوں کی شکل بھولنے لگے
مر جانے والے رشتہ داروں کی طرح
مر جانے والوں کو بھولنا ہمارا رواج نہیں بن سکا
وہ زندوں کی طرح ہمارے ساتھ تھے
ہماری کھڑکیاں ان کی قبروں پر کھلتی تھیں
ہم ان کے صحن میں کھیلتے تھے
ہم ان کے کتبوں کے کندھوں پر جھولتے
اگر ان پر وہ جھنڈے نصب نہ ہوتے
جن کے اٹھانے والے تلواریں گھروں پر رکھ جاتے ہیں
یا وہ نام نہ لکھے ہوتے جو ہمارے مرنے والوں کے نام سے ملتے جلتے
لیکن مقدس تھے
ہمارے جھولے ان قبرستانوں میں نصب کیے گئے
جہاں ہمارے والدین جمع ہوتے تھے
پتھر سے ڈھکے نیچے چبوتروں کے گرد
جو ہمارے بھائیوں کی جائیدادیں تھیں
وہ ایسی چادروں پر بیٹھتے تھے
جنہیں تہیں جما کر
پاکیزہ سمجھے جانے والے اوراق کے ساتھ رکھا جاتا تھا
اگلے دن دوبارہ بچھائے جانے کے لیے
وہ زمین کے ان ٹکڑوں پر بچھتی تھیں
جو ہمارے باپوں نے خریدے تھے
پہلے خریدے گئے ٹکڑوں پرگڑھے کھودنے
اور انہیں
اپنے بیٹوں کے جسموں سے پر کر دینے کے بعد
اوپر اٹھنے والی روحیں زمین کی قیمت آسمان پر لیجانے لگیں
تو ہمارے باپ خوفزدہ ہو گئے
وہ ڈرتے تھے ہمارے قتل کیے جانے سے
یا اس بات سے کہ دوسرا ٹکڑا دوسرے جسم سے پر کرنے لیے
وہ زندہ رہ جائیں گے
یا اس بات سے کہ تیسرا ٹکڑا خریدنے کے لیے ان کے پاس رقم موجود نہیں ہو گی
ان کے خوفزدہ جسموں سے لرزتے بازو جڑے ہوئے تھے
جو ماتم اور دعا کے لیے اٹھتے تھے
یا ان پتھروں کو توڑنے کے لیے
جن کے پیٹ میں خدا نے ہمارے حصے کے سکے رکھ چھوڑے تھے
پتھر توڑنے والے ہاتھ
مٹی کھودتے تھک جاتے ہیں
جب انہیں وہ بیٹے دفنانے پڑیں
جنہیں پہاڑ کھود کر نکالے گئے رزق پر پالا گیا ہو
ہماری ماووں کے آنسو
سفید چہرے کی جھریوں میں دفن ہوتے تھے
جو وقت سے پہلے
قبروں کے گرد جنگلی پھولوں کی طرح
بے ترتیب اگ آئی تھیں
ہم ان کتبوں کے پیچھے چھپتے تھے جن پر
ہمارے شجرے کی شاخوں کا سایہ تھا
میں سوچنے لگا تھا شہید ہمارا خاندانی نام ہے
میں نے اسے کاپیوں پر اپنے نام کے ساتھ لکھنا شروع کر دیا
میری خوفزدہ ماں اسے روز مٹا دیتی تھی
ہم اپنی قید خانوں سے نکلنے کا پرمٹ کھو چکے ہیں
ان سے باہر جانے کا راستہ زمین کے اندر سے نکلتا ہے
مگر زمین ہمیں راستہ نہیں دیتی۔۔
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *