جبروقدر، لازمہ و حادثہ اور جبرواختیار
تحریر: فدا حسین
یہ نہایت پیچیدہ اصطلاحات و نظریات ہیں جو صدیوں تک چلنے والے طویل نظریاتی مباحثوں کی زینت بنے رہے ہیں اور جن کا استدراک اور درست گردان ایک طالب علم کے لیے لازمی ہے۔ ان مباحثوں میں مثالیت پرست اور کلاسیکی مادیت پسند فلاسفہ اور مذہب نے خوب گرم جوشی دکھائی اور بڑھ چڑھ کر اپنے نظریات کے مطابق دلائل دئیے۔ منتہا کارل مارکس نے انہیں مادی بنیادوں پر استوار کرکے ان میں نئی روح پھونک دی۔
1: جبر و قدر:
جبر= انسان اپنے افعال و اعمال میں مجبورِمحض ہے۔ (کلاسیکی توضیح)
قدر= انسان اپنے افعال و اعمال میں صاحبِ اختیار (قادر) ہے۔ (کلاسیکی توضیح)
اِس مسلے پر بحث نے صدیوں تک کلاسیکی فلاسفہ میں اہمیت اختیار کئے رکھا کہ انسان ”اپنے افعال و اعمال میں“ مجبورِ محض ہے یا ان پر قادر؟ وہ نادرست اس لیے تھے کیونکہ ان کی مو شگافیاں محض انسانی ”افعال و اعمال“ کے گرد گھومتی رہیں۔ جبری اور تقدیری، انسان کو مجبورِمحض تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق انسان اپنے افعال و اعمال کی بارہ ”لکھی ہوئی“ تقدیروں کو نہ تو سلب کرسکتا اور نہ ہی اُسے نئی سمت دے سکتا ہے۔ بعض غیر معروف یونانی فلسفیوں کا خیال تھا کہ انسان کسی معاملے میں بھی بااختیار نہیں بلکہ اس کا معاشرہ اور اس کی حاصل کردہ تعلیم و تربیت ہی اس کا تعین کرتا ہے۔ مذہبی لحاظ سے اِس نظریے نے جنت اور دوزخ کے تصور کو تقریباً معدوم کردیا۔ اس نظریے کی ضد پر ”قدری“ کھڑے ہیں۔ جن کا ماننا ہے کہ انسان اپنے ”افعال و اعمال“ میں خود مختار ہے۔ ان میں ارسطو، بشپ برکلے اور برگساں شامل ہیں۔ قدر و اختیار کا تعلق ازل سے اہلِ مذہب اورمثالیت پرستوں کے ساتھ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”انسانی روح اور اس کا شعور خودمختار، غیرفانی اور غیر مادی ہے۔ یہ ازل سے موجود ہیں اور تا ابد رہیں گے۔“
2: لازمہ و حادثہ:
لازمہ= فطرت اور سماج میں جاری عمل کاریاں
حادثہ = فطرت اور سماج میں جاری عمل کاریوں پربیرونی مداخلت۔
”اِس اصطلاح کا براہ راست تعلق ہر قسم کے سائنسی تجربات و مشاہدات یا عام علمی استدراک سے ہے۔ کیونکہ دورانِ تجربات و مشاہدات ایک سائنسدان ’حادثہ‘ کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرسکتا اور نہ ہی یکدم وہ اپنے من چاہے ردِعمل کا متمنی ہوتا ہے۔ جبکہ مرد و زن کے لیے عام حالات میں اس کا وقوع پذیر ہونا قطعاً تعجب کا باعث نہیں بن سکتا۔ کیونکہ اس چیز سے آشنائی انہیں زندگی بھرکے مشاہدوں اور تجربوں سے مسلسل ہوتی رہتی ہے۔ لازمہ پر حادثہ کا اثر کبھی معمولی نوعیت کا ہوتا ہے، جس کے باعث ’لازمہ‘ کی رفتار کچھ عرصے کے لیے فقط تعطل کا شکار بن جاتا ہے۔ تو کبھی اس کے شدتِ وار سے ’لازمہ‘ کا تباہ ہونا ناگزیر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔“
چھ ماہ قبل سردیوں میں جب موسم کا قہر منفی دس پرمنڈلا رہا تھا، چائے بنانے کی خاطر ہم ایک کیتھلی میں ایک لیٹر پانی ڈال کر مخصوص ٹمپریچر کے چولہے پر اُبالنے کے لیے رکھ چھوڑتے تھے اور پانی ٹھیک دس منٹ بعد اُبلنا شروع کردیتا تھا۔ جبکہ آج گرمیوں میں جہاں درجہ حرارت 40 سینٹی گریڈہے، اُسی کیتھلی میں اُسی مقدار پانی کو اُسی مخصوص ٹمپریچر پر اُسی چولہے پر رکھنے کے بعد یہ بات ہم پر منکشف ہو گی کہ وہی پانی دس منٹ کے بجائے چھ یا سات منٹس میں اُبلنا شروع کردے گا اور ہمیں تعجب اس لیے بھی نہیں ہوگا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ٹمپریچر کا اتار چڑھاؤ یہاں معمولی نوعیت کے ”حادثہ یا اتفاق“ کا باعث بنا ہے۔ جبکہ پانی کا اُبلنا، یا بہ زودی یا بہ دیر ”لازمہ“ ہے۔
اسی بنا پر اگر ہم کسی کاغذ کے ٹکڑے کو فضا سے زمین کی طرف چھوڑیں تو اس کا زمین کی جانب کشش اور زمین ہی پر گرنا ”لازمہ“ ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا کشش ثقل کی وجہ سے ہوگا۔ لیکن اچانک معمولی نوعیت کے ”حادثہ یا اتفاق“ کی صورت میں یا ہوا کے چلنے سے یہ عمل فطرت کے بالکل برعکس وقوع پزیر ہوگا اور کاغذ کا وہی ٹکڑا زمین پر گرنے کی بجائے ہوا میں اڑنے لگے گا۔ ہمیں پھر بھی حیرت نہیں ہوگی، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہوا کا اچانک چلنا معمولی نوعیت کا ”حادثہ یا اتفاق“ ہے۔ اس لیے وہی کاغذ کا ٹکڑا چند لمحوں بعد واپس زمین پر ہی جا گرے گا۔
زمین سے پھوٹنا، اس کی کونپلیں نکلنا اورپھر اس پر خوشے لگنا ایک بیج کا ”لازمہ“ ہے۔ مگر تباہ کن ژالہ باری کی صورت میں اگر ”حادثہ“ ظاہر ہو کر شدت سے وار کر جائے تو فطرت کے مطابق اس میں جاری عمل کاریوں کو کسی بھی مرحلے پر مسدود کرکے اُسے تباہ و برباد کرسکتا ہے۔
3: جبر و اختیار:
کارل مارکس اور مارکسسٹ ”جبر و اختیار“ کے اتحاد کے قائل ہیں۔ سائنسی بنیاد پر یا مارکس اور مارکسسٹ کے نزدیک۔
جبر= ”مادے میں تغیرات کا برآمد نتیجہ یا ’مقادیر کی معیار میں تبدیلی‘ یا ’معیاری جست (جس کے مقابل ہمارے اجداد مجبورِمحض تھے)۔“
اختیار= ”اجبار کااستدراک اور پھر شعوری مداخلت۔“
لاکھوں سال پہلے انسانوں کی زیادہ تر ناگہانی اموات شکاری درندوں کے حملے، بجلیوں کے گرنے، زلزوں کی تباہ کاریوں، طوفانوں کی زد یا باقی دیگر ناگہانی فطری آفات سے ہوتی رہیں۔ حتیٰ کے بیسویں صدی تک ملیریا، تپ دق اور چیچک جیسے معمولی امراض سے کروڑوں افراد کی جانیں جاتی رہیں۔ جن کے حضور ہمارے اجداد بے بس اور مجبورِمحض تھے۔ یہ تباہ کار فطرتی آفات آج بھی معمول کے مطابق جاری ہیں اور متذکرہ بالا امراض کے جرثومے آج بھی اکا دکا پسماندہ ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ مگر ان کے نقصانات تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ (یعنی: زیادہ سے زیادہ 05%) اس کی اصل وجہ انسان کی ذہنی ارتقاء اور ”اجبار کا استدراک اور پھر شعوری مداخلت کا نتیجہ ہے۔
آج انسان بارش برسانے کے راز کو پانے کے بعد اس پر مکمل ”اختیار“ حاصل کرچکا ہے۔ وہ یہ جان چکا ہے کہ کون سے عوامل بارش برسا سکتے ہیں۔ اس لیے آج اسے جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوتی ہے، مصنوعی بارش برسا سکتا ہے۔
بجلی کے گرنے سے انسانی جانوں کے ضیاع کو ”اینٹی تھنڈر ڈیوائس“ دریافت کرکے روکا گیا۔ بلکہ اسے الیکٹریسٹی (برقی توانائی) کی صورت اپنی باندی بھی بنا ڈالا اور زلزلوں کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے Earthquake Proof Buildings کی تعمیر کا راز بھی پا لیا ہے۔
ناگزیر سوشلسٹ انقلاب کو بھی ہم ایک مسلمہ ”جبر“ سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ جس کی بھنک مارکس اور مارکسسٹوں نے صدیوں قبل محسوس کی تھی اور جس کا مزدور طبقے (جن میں علم و تعلم کا فقدان ہوگا) کے ہاتھوں صورت پذیر ہونا لازمی امر بتایا گیا ہے۔ اب ……! چونکہ مارکس اور مارکسسٹ نہ جبری ہے اور نہ ہی قدری، بلکہ ”جبر و اختیار“ کے اتحاد کے قائل ہیں، تو یہ بات طے ہے کہ اس میں ”شعوری مداخلت“ کرکے اُن کی اصل منزل ”سوشلسٹ انقلاب“ کی جہت کو مہمیز ضرور دیں گے۔ (جس کی جانب عام نابلد مزدور رواں ہوں گے)۔