مصورہ شازیہ بتول … رضا حسن

مصورہ شازیہ بتول

 رضا حسن

مایہ ناز مصور پکاسو کا کہنا ہے کہ رنگ کی طاقت براہِ راست روح پر اثرانداز ہوتی ہے۔ پکاسو کے اس قول میں موجود بھید اور رازنے مجھے ایک آرٹسٹ پر تصنیف لکھنے پر مجبور کردیا۔  ہمارے ضعف عقل،عمیق اور تاریک وجدان یا زنگ آلود دماغ کے بے نظم فیصلے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہم فن، آرٹ اور مصوری سے کتنے بیگانہ، ناواقف اور دور رہ گئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے اپنے خیالات اور تاریک وجدان کو تعصبات اور سیاست کی پرستش سے آزاد کریں تاکہ ہم میں عقل و آگہی کا چراغ روشن ہو ۔ اس راہ معقول کو ہموار کرنے کیلئے ایک مصور اور آرٹسٹ سے مدد طلبی کی تشبیہ کو میں لفظ بہ لفظ درست سمجھتا ہوں کہ ایک مصور ہی انسان کی کم علمی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انسان کی زندگی  اور کائنات میں خوبصورتی کے تعلق، اس کی ابتدا اور انتہا کا ذکر کرتا ہے۔  

آرٹ و فن کا انسان کی بقاء سے وہی ربط ہے جو اسے دوسرے اہم مسائل سے ہے۔  شاید ہمیں نقاشی اور اس فن کی یوں تعریف کرنی چاہیے کہ یہ زندگی کو خوبصورت رنگوں سے پیوست کرنے والے سوال کا نام ہے. دنیا میں باقی علوم کی طرح مصوری اور نقاشی بھی خط مستقیم میں دو نقطوں کے درمیان طوالت پر مبنی، ختم نہ ہونے والی ایک خوبصورت لکیر ہے ۔ اس کی طوالت کو ایک نقاش ہی بہ حرف آسان بیان کر سکتا ہے۔ معاشرے میں پیدا ہونے والی گھمبیر صورتحال سے بد نظمی اور جذباتی روئیے کسی بھی فرد کے لیے بے چینی اور اضطراب کا باعث بن سکتے ہیں۔  ایسی صورتحال میں ایک آرٹسٹ، مصور زندگی کا حقیقی پن اور ان اضطرابی کیفیت سے نجات جانتا ہے۔  مضمون میں لفظوں کی کشادگی کو کم کرنے کیلئے یا بہ الفاظ دیگر چترکار، آرٹسٹ، مصور کی تعریف کو بیان کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔  قصہ مختصر، ہمارے سماج سے تعلق رکھنے والی ایوارڈ یافتہ مصورہ ” شازیہ بتول” کی بنائی ہوئی نقاشی سے کون واقف نہیں؟ مصورہ شازیہ بتول نے معاشرے سے ربط و تعلق رکھنے والے ہر اس موضوع پر نقاشی کی ہے جس سے معاشرے میں شعوری ارتقاء کو پروان چڑھانے کی کیفیت کو سمجھنا مشکل نہیں .مصورہ شازیہ بتول کاش آپ مغرب یعنی یورپ میں ہوتیں کیونکہ ہمارے ہاں دل کو پارہ پارہ کرنے والی تلخ حقیقت یہ ہے کہ شاید ہم سیاست کے اسیر بن گئے ہیں۔ آپ کی بنائی ہوئی گراں قدر نقاشیوں کو یہاں سمجھنے والے بہت کم ہیں۔ جیسے کوئی اندھوں کے شہر میں آئینہ بیچنےآئی ہو. بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری آنکھوں اور دماغ پر بعض سیاست مداروں نے وہ پٹی باندھ رکھی ہے کہ ہم خوبصورتی اور خوشنمائی کو دیکھنے سے محروم اور فکر ی لحاظ سے مفلوج انسان بن گئے ہیں۔

نوٹ: ہمارے لکھاری حضرات تو سیاست پر بہت کچھ لکھتے ہیں جو آج کا سچ اور کل کا جھوٹ ہونے کے مترادف ہوسکتا ہے لیکن معاشرے کو درپیش آفات کے آگے ہم کس طرح  بند باندھ سکتے ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے!

رضا حسن
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *