یومِ مئی
علی رضا منگول
آج میں شکاگو کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش نہیں کرونگا نہ ہی اُنہیں سرخ سلام پیش کروں گا، بلکہ آج میری خواہش ہے کہ ہم سنجیدہ گفتگو کریں۔ کچھ اپنے بارے میں کہیں اور کچھ اپنے بارے میں سنیں، شکاگو کے شہیدوں کوحقیقی معنوں میں سرخ سلام اور خراج عقیدت پیش کریں اور ثابت کریں کہ جو ا نہوں نے کیا تھا وہ ہم بھی کرکے دکھائیں گے۔
ہمارا نعرہ ہے کہ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ مگر ہم پشتون ہیں، ہم بلوچ ہیں، ہم پنجابی ہیں، ہم سندھی ہیں، ہم سرائیکی ہیں، ہم ہزارہ ہیں، ہم ہندو ہیں، ہم مسلمان ہیں، ہم مسیحی ہیں، ہم ذکری ہیں، ہم شیعہ ہیں اور ہم سنی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عملی طور پر ہم مزدور بھائی بھائی ہیں کہ نہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم ایک ہیں تو ہماری زندگیاں کیوں بہتر نہیں ہورہیں ۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے مسائل کم ہونے کی بجائے کیوں بڑھتے جارہے ہیں۔ حکمران جب چاہیں مہنگائی کرتے ہیں اور ادویات اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں، جب چاہیں صحت اور تعلیمی بجٹ میں کمی کرتے ہیں، اب تو انہوں نے یہ تک کہہ دیا ہے کہ ہم نوکریاں نہیں دے سکتے۔ ہر نوجوان اپنا بندوبست خود ہی کرے، ہم ملازمتوں کے ذمہ دار نہیں۔ آج اگر یہ ریاست ہماری صحت کی ذمہ دار نہیں، ہماری تعلیم کی ذمہ دار نہیں، ہمارے روزگار کی ذمہ دار نہیں، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی ذمہ دار نہیں، اغوا برائے تاوان اور گمشدہ افراد کی بازیابی کی ذمہ دار نہیں ، ملازمتوں کے بعد ہمارے بڑھاپے کی زندگی میں ہماری فاقہ کشی کی ذمہ دار نہیں تو کس بات کی ذمہ دار ہے!؟
بھرپور توانائی و خوبصورت جوانی اور زندگی کے بہترین ایام ہم نے ریاست اور عوام کی خدمت میں گزارے ۔ اب نہ مکان ہے نہ ڈھنگ کے کپڑے اور نہ ہی نرم روٹی۔ آج کئی دہائیوں کی خدمات کے بعد بھی اگر بندۂ مزدور کے اوقات میں بہتری کی ذمہ دار ریاست اپنے آپ کو بری الذمہ کہتی ہی تو اس سے مزید کیا اُمید کی جاسکتی ہے؟
پیرامیڈیکس، ڈاکٹر، نرسز، کوئلے کے مزدور، سیندک کے مزدور، پولیس کے محنت کش، فوج کا ادنیٰ سپاہی، اساتذہ، کلرک، ریلوے کے محنت کش، دیہاڑی دار محنت کش، ڈاک اور پی ٹی سی ایل کے محنت کش، ریلوے اسٹیشن کے قلی محنت کش، سڑکیں بچھانے والے اور ان کی مرمت کرنے والے محنت کش جب نانِ شبینہ کے لئے پریشان ہوں، اپنے بچو ں کی تعلیم و تربیت اور ان کے مستقبل سے نااُمید ہوں تو اس ریاست اور حکومت کی کن باتوں اور وعدوں پر آس لگائے بیٹھے رہیں؟ معاشرہ ہماری توانائی کی بدولت حرکت میں ہے مگر میں چپراسی، میں چوکیدار، میں مالی، میں خاکروب و سویپر، کبھی بھی اپنے بیٹے کو ایک اچھی زندگی دینے کا خواب مکمل ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ چپراسی افسروں کے اور پرسکون ماحول کے لئے اپنے ہی لوگوں کے ساتھ لڑنے جھگڑنے پر مجبور ہے، چوکیدار رات کی خوبصورتی اور سکون برباد کرکے دوسروں کو آرام کی نیند سونے کا انتظام کرتا ہے، مالی اپنے ہاتھوں کو کانٹوں اور پتھروں سے زخمی کرکے خوشبودار ماحول کو یقینی بناتا ہے، خاکروب کا بیٹا بھی خاکروب جو تمام انسانوں کی گندگی صاف کرکے خود گندگی سے لت پت رہتا ہے۔ مگر ان سب کے باوجود انہیں ہر وقت حقارت اور غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ دنیا یہ ملک یہ ریاست غریبوں کے لئے نہیں۔ ہمیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنی ہے۔ ہمیں مشکل حالات کے خلاف لڑنا ہے، ہمیں انسانی زندگی حاصل کرکےپرسکون اور قابل احترام زندگی کے قابل بنانا ہے اور یہ سب ایک ہوئے بغیر ممکن نہیں ۔ اس ریاست کا ہر ستون محنت کشوں کے خون اور پسینے پر کھڑا ہے ۔ ریاست ہماری توانائی اور محنت پر پل رہی ہے۔ اس ملک کی بیوروکریسی اور دیگر حاکم طبقات وزراء اور سرمایہ دار مزدور کی مزدوری پر عیاشی کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ ، عدالتیں اورانتظامیہ ان کی اور سب سے بڑھ کر میڈیا کے تمام حصے سکول، کالج، یونیورسٹیاں اور محراب و ممبر ان کے لئے مگر ہمارے لئے، صرف سسکیاں، آہیں، پریشانیاں، ذلالت و رسوائیاں اور حاکم طبقے کی غلامی۔ مگر پھر بھی ہم ایک نہیں ہوسکتے، ہمارا سکھ دکھ ایک ہے ہمارا نصیب ایک ہے اور جس دن ہم ایک ہوئے اس دن نہ ہمیں کوئی لُوٹ سکے گا نہ دبا سکے گا اور نہ ہی مٹا سکے گا۔ ہمیں حالات پر گہری نظر رکھنی ہوگی اور ان حالات سے نکلے کی ہر ممکن کوشش کرکے ایک انسانی زندگی جینے کا ہدف اور مقام حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام توانائی بروئے کار لاتے ہوئے اپنے بچوں اور آئندہ نسلوں کا مستقبل خوبصورت اور محفوظ بنانا ہوگا ۔
- حکمت عملی/طریقِ کار ۔۔۔ علی رضا منگول - 27/12/2023
- نوش دارو بعد از مرگ سہراب ۔۔۔ علی رضا منگول - 01/12/2023
- جامعہ بلوچستان کا مالی بحران یا پرائیوٹائزیشن کی جانب قدم ۔۔۔ علی رضا منگول - 30/04/2023