پاکستانی ہزارہ قوم کی تاریخ میں گذشتہ صدی کی 60 کی دہائی کو اس لحاظ سے کلیدی اہمیت حاصل ہے کہ 1963ء کے دوران “انجمن فلاح و بہبود ہزارہ” کے نام سے ایک آرگنائزیشن بنی جس کے بقول جناب پروفیسرناظر حسین دو بنیادی مقاصد تھے:
الف: قوم میں جدید تعلیم کو فروغ دینا
ب: سماجی برائیوں کے خلاف کام کرنا (ماہنامہ پیغام تنظیم 2006ء شمارہ 29، بشکریہ جناب مرزا آزاد)
انجمن کے بانی اراکین میں مرحوم فقیرحسین (بعد میں ڈنمارک شفٹ ہوئے)، مرحوم محمدعلی اختیار، مرحوم حسین علی حیدری، پروفیسر ناظرحسین، حاجی قادرعلی وغیرہ شامل تھے۔ پروفیسر صاحب کے مطابق 60 کی دہائی تک بمشکل دو تین ہزارہ گریجویٹ اور کچھ میٹرک پاس لڑکے تھے جو غربت کے باعث آگے نہیں پڑھ سکے تھے کیونکہ اس زمانے میں پورے بلوچستان میں نہ تو کوئی ٹیکنیکل ادارہ تھا اور نہ ہی یونیورسٹی اور طلباء کو مزید تعلیم کیلئے سندھ یا پنجاب جانا پڑتا تھا۔ انجمن فلاح و بہبود نے اپنی مدد آپ کے تحت غریب مگر ہونہار ہزارہ طالبعلموں کے تعلیمی اخراجات کا بندوبست کرکے انہیں صوبے سے باہر بطورخاص کراچی کے میڈیکل و انجنئرنگ کالجز میں بھیجنا شروع کردیا جس کے کافی اچھے نتائج آنے لگے۔ چنانچہ ایک طرف اس وقت کی نوجوان نسل میں تعلیم کی طرف آنے کی حوصلہ افزائی ہوئی جبکہ دوسری طرف ان ٹیکنیکل اداروں سے فراغت پانے والے ہزارہ طلباء اچھے عہدوں پر فائز ہونے لگے۔ آگے چل کر یہ سبھی افراد اعلیٰ عہدوں پر پہنچے۔ ان میں سے چند ایک نے غیرت کا مظاہر کرتے ہوئے ایک حد تک معاشرے کو ریٹرن دینے کی کوشش بھی کی۔ جبکہ اکثریت ناجوان نکلی اور اس صدقہ جاریہ کو آگے بڑھانے کے بجائے بنگلہ بنانے،دنیاوی کش و فش اور دیگر تعیشات میں لگ گئی۔ 60 کی دہائی سے شروع ہونے والا یہ تعلیمی رحجان بعد کی کئی دہائیوں تک جاری رہا ۔ یعنی حصول علم و دانش پاکستانی ہزارہ قوم کی (لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے) پہلی ترجیح رہی۔ چنانچہ ایک سادہ روزانہ کار سے لے کر کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے بچیاں بلا امتیاز حصول تعلیم میں جت گئیں۔ 2001ء کے دوران میرے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت علمدار روڑ، ہزارہ ٹاؤن اور شہر کے دیگر تعلیمی اداروں میں 30000 کے قریب ہزارہ طلبہ و طالبات زیر تعلیم تھے جن میں نصف تعداد طالبات کی تھی۔ (لنک ذیل میں موجود ہے)
بدقسمتی سے ہزارہ قوم کی یہ ترقی، بدخواہوں کیلئے چونکہ قابل قبول نہ تھی لہذا اکتوبر 1999ء سے ہزارہ قتل عام کی ایک مہم چلائی گئ جوتا حال یعنی دو عشرے سے زیادہ مدت تک جاری ہے ،جس میں ہزاروں بے گناہوں کی جانیں جا چکی ہیں، ہزاروں دیگر زخمی و معلول اور ہزاروں دیگر بیرون ملک مہاجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ سرکاری و نجی اداروں میں بدترین اقرباء پروری، رشوت ستانی، قومی، مزہبی اور لسانی تعصبات نے ہمارے نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع بھی بند کردیے ہیں۔ ان تمام منفی عوامل نے ہماری نئی نسل میں تعلیمی رحجان کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا اندازہ ہزارہ سٹوڈنٹس فیدریشن کے جنرل سیکریٹری مجتبیٰ زاہد کے مرتب کردہ ایک حالیہ اعداد و شما ر سے بخوبی ہوتا ہے۔ اگرچہ اس اعداد و شمار میں ہزارہ ٹاؤن کے فیگرز شامل نہیں مگر اس کے باوجود ان اعدادوشمار کے مطالعے سے 2001ء کی نسبت ہزارہ نوجوانوں میں تعلیمی رحجان کی کمی کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ جو کہ درج ذیل ہیں:
درسگاہ 2001ء ۔۔۔۔۔۔۔ 2021ء
یزدان خان 850 ۔۔۔۔۔۔۔۔ 370
ہزارہ سوسائٹی 2160 ۔۔۔۔۔۔ 773
گرلز مومن آباد 2470 ۔۔۔۔۔۔ 1089
گرلز عیسیٰ خان 2495 ۔۔۔۔۔۔۔ 844
یہی صورتحال علاقے کے دیگر سرکاری درسگاہوں کی بھی ہے۔ مندرج بالا اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں طالبعلموں کی تعداد میں 60 فیصد تک گراوٹ آئی ہے۔اس ضمن میں جب میری کچھ ذی ربط دوستوں بشمول ماسٹر زمان دہقانزادہ،ماسٹر لیاقت علی،ماسٹر شوکت علی، ماسٹر افتخارحسین، مجتبیٰ زاہد وغیرہ سے گفتگو ہوئی تو ان میں سے ایک حلقے کا خیال تھا کہ بدقسمتی سے اس کی بڑی وجہ ڈراپ آوٹ (سکول ترک کرنا) ہے جبکہ دوسرے کا کہنا تھا کہ اب چونکہ لوگوں کی مالی پوزیشن بہتر ہوئی ہے لہٰذا انہوں نے اپنے بچوں کا پرائیویٹ سکولوں میں داخلہ کرایا ہوگا۔ لیکن علاقے کے پرائیویٹ سکولز کے اعداو شمار اسکی نفی کرتے ہیں، مثلاً
درسگاہ 2001 ء ۔۔۔ 2021ء
امت پبلک 480 ۔۔۔۔۔ 730
ڈان آئیڈیل 310 ۔۔۔۔۔ 707
المصطفیٰ 1227 ۔۔۔۔۔۔ 514
تنظیم 853 ۔۔۔۔۔۔۔ 683
اس جدول سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طلباء کی تعداد کے لحاظ سے پرائیویٹ سکولوں میں کوئی قابل ملاحظہ اضافہ نہیں ہوا ہے اگر ہوا بھی ہے تو وہ اضافہ آبادی کی سالانہ شرح کے لحاظ سے ہوا ہے۔ میں نے اس ضمن میں آسٹریلیا کے دوستوں سے بھی بات کی ہے۔ ان کے مطابق ہزارہ پناہ گزینوں کی ایک تعداد جنکا تعلق کوئٹہ سے ہے، وہ ابھی تک بریجنگ یا ٹمپریری ویزوں پر ہیں اور ان کی فیملیز ابھی تک کوئٹہ ہی میں مقیم ہیں۔ پاکستان کے دیگر شہروں میں ہجرت کرنے والوں کی تعداد بھی اس قدر زیاد نہیں۔ ایسے میں زیادہ امکان ڈراپ اپ کا ہے۔
اب میرا بنیادی سوال تمام ذی ربط افراد قوم، قومی، سیاسی اور سماجی اداروں سے یہ ہے کہ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ زمینی حقائق کیا ہیں؟ اگر تعلیمی شعبے میں اتنی بڑی گراوٹ آئی ہے اور ہماری نوجوان نسل کی اتنی بڑی تعداد (ہزاروں میں) تعلیم سے روگردان ہوئی ہے، یعنی وہ ڈراپ آوٹ ہوئی ہے تو کیونکر ؟ اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ کیونکہ یہ کسی بڑے قومی المیے سے کم۔ نہیں، علم و دانش سے روگردانی کا یہ رحجان ہماری آنے والی نسلوں کیلئے تباہ کن ہے۔ اس ضمن میں اگر فیلڈ ورک ہوسکے تو سب سے بہترین اور قابل بھروسہ راستہ ہے۔ اس ضمن میں کوئی قومی تنظیم یا یونیورسٹی لیول کے اساتید جیسے ڈاکٹر رحیم چنگیزی،ڈاکٹر سجاد عاصم چنگیزی یا کسی معتبر این جی او سے منسلک افراد جیسے امدادعلی نویان، فاطمہ عاطف، صادقہ سلطان، سجاد چنگیزی وغیرہ یا ان جیسے دیگر اہل علم و اہل درک لوگ اس موضوع پر فیلڈ ریسرچ کر کے یا کراکے حقائق سامنے لاسکتے ہیں
نوٹ:
مجتبیٰ زاہد کے جمع کردہ اعداد و شمار کی کاپی میرے پاس موجود ہے جبکہ میرے اعداد و شمار کی لنک درج ذیل ہے:
- سانحہ 6 جولائی 1985 ۔۔۔ اسحاق محمدی - 08/11/2024
- محمدعالم مصباح (تیسری اور آخری قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 05/09/2024
- عالم مصباح (1967- 1994). دوسری قسط۔۔۔ تحریر۔ اسحاق محمدی - 27/08/2024