آج سے چالیس، پینتالیس سال قبل، ہزارہ لکڑہارے پہاڑوں سے کانٹے دار جھاڑیاں (خاشہ) اور لکڑیاں کاٹ کر محلوں میں فروخت کرکے اپنا گزربسر کرتے تھے۔ یہ سوسائٹی کے انتہائی غریب لوگ تھے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے، کہ ان کے بوسیدہ ملبوسات میں مختلف دوسرے کپڑوں کے پیوند لگے ہوتے تھے جن میں ان کے کپڑوں کا اصل رنگ مدغم ہوتا نظر آتا تھا۔(یعنی: کچھ پتہ نہیں چلتا تھا، کہ ان کے کپڑے کا اصل رنگ کونسا ہے)
یہ لوگ بلاناغہ ہر شام مختلف گلیوں کے نکڑ پر اپنی چھوٹی چھوٹی منڈیاں لگاتے تھے اور تھکے ہارے اپنے اپنے بقچیوں (پوشترہ) پر ٹیک لگائے حسرت بھری نظروں سے گاہکوں کو تلاش کرتے نظر آتے تھے۔ ان میں سے ایک آدھ لکڑہارے گدھوں پر بھی لکڑیاں لاد کر لاتے تھے۔(آج کے ”کوتل خرو“ کا نام اسی مناسبت سے رکھا گیا تھا)۔
ہماری گاہک مائیں اور ہمارے خریدار بزرگ سب سے پہلے ان تھکے ہارے بقچی برداروں سے حسب ضرورت لکڑیاں یا خاشہ خریدتے تھے۔ ان دنوں خاشے کی بقچیاں بارہ آنے(75 پیسے) جبکہ لکڑیوں کے سوا روپے(ایک روپے پچیس پیسے) قیمتیں تقریباً مقرر تھیں۔ ان غریب لکڑہاروں سے یہ خریدار نہ مول بھاؤ کرتے اور نہ ہی ان سے بقچیاں تول کر خریدتے تھے۔ ہزارگی سماج میں یہ خریداریاں عموماً حلیمانہ رواداریوں اورمالی امداد کی بنیاد پر طے ہوتی تھیں۔ خریداری کے بعد لکڑہارے ان بقچیوں کو خریدار کے گھر پہنچا کر پیسے وصول کرتے تھے۔ بعد میں ہماری مائیں اور بہنیں ان سے اپنے گھر کے تنوروں (تندوروں) یا توؤں کو روشن کرکے روٹیاں لگاتے تھے۔(یاد رہے، کہ اس زمانے میں نہ بجلی کی سہولت میسر تھی اور نہ ہی گیس کی)
ان دنوں گھروں میں لگے تنوروں اور چڑھے ہوئے توؤں پر مل کر روٹیاں لگانا اور پک جانے پر ادھیڑنا ہماری ماؤں اور بہنوں کے لئے کسی دلچسپ تفریح سے کم نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ دو تین محلے دار عورتیں اکٹھی ہو کر ایک ہی تنور یا توے پر اپنی اپنی روٹیاں پکاتی تھیں۔ رواداری اس حد تک تھی کہ ان عورتوں کو یہ بات بھی نہیں ستاتی تھی، کہ جو لکڑیاں جل رہی ہے کس کی ہیں؛ اور توا یا تنور جس پر روٹیاں پک رہی ہیں کس کی ہے۔ یقین جانیے؛ ان دنوں تنور کی دوکانوں سے نابلد ہزارہ گی سماج آج بھی گرما گرم ان روٹیوں کی خستہ، لذیذ اور خوش ذائقہ مزوں کو نہیں بھولے ہیں۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ 1970ء کی دہائی میں تنوروں سے منصوب اس طرح کی دوکانوں کی بھرمار ہوئی جن میں خستہ و خوش ذائقہ تنوری روٹیاں فروخت ہونا شروع ہوئی۔ ضرورت زمان کے مطابق یہ سلسلہ نہایت خوش آئند تھا، کیونکہ سوسائٹی کے ایک طبقے نے یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی اور وہیں جھونکے ہوئے تنور ان خاندانوں کے چولہوں کو بھی روشن کرنے لگے۔ مگر آج وہی خوش آئند سلسلہ مکمل طور پر اجارہ داری میں تبدیل ہو چکا ہے۔ کیونکہ ہر ششماہی پر تنور پر تالے ڈال کر مالکان کی طرف سے دس پندرہ دنوں کی ہڑتالیں اب عام ہو چکی ہیں، جس کے لئے کوئی بھی فرد معاشرہ پیش از پیش قطعاً تیار نہیں ہوتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے بااختیار انتظامیہ دفتر کے سامنے احتجاج کرتے یا دھرنا دیتے، نہ کہ عام لوگوں سے انتقام لیتے۔ انہیں تو گھمبیر سے گھمبیرترین صورتحال میں بھی ہڑتالوں پر جانے کی بجائے اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہیے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے، کہ ان کا واسطہ آج تک اپنے محلے داروں سے دوبارہ پڑتا آرہا ہے۔
آج تنوروں کی بندش کو ہفتہ ہو چکا ہے اور توؤں پر روٹیاں اور پراٹھے لگانے والے موقع پرستوں کی دوکانوں اور تھڑوں پر مرد و زن کے قطار در قطار مودبانہ انداز میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے مناظر کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جبکہ توؤں پر بنی ان کی روٹیوں اور پراٹھوں کا وزن بھی کم اور قیمتیں بھی دگنی ہو چکی ہیں، مگر انتظامیہ ہمیشہ کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔
”اس موقع پر میرا قابل عمل یہ مشورہ ہے، کہ ہمیں وہی سلسلہ دوبارہ شروع کرلینا چاہیے……مگر ایک نئے انداز سے! تاکہ یہ سلسلہ آج کل کے حالات کی طرح کبھی بھی تعطل کا شکار نہ ہو۔“
پچھلی دو خونریز دہائیوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ نہایت تنگدستی کا شکار ہے، جس کے دل گیر و دل گرفتہ مناظر ہمیں روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بالخصوص ان موقعوں پر جب ہماری مفلس و بے کفیل اور بیوہ و نادار مائیں گھر میں پراٹھے یا پراٹھوں میں کچھ سبزی ڈال کر اپنے ان بچوں کے ہاتھوں گلی محلوں میں بیچنے کی کوشش کرتی ہیں، جن کی عمریں فقط و فقط تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہونی چاہیے۔ میں نے اکثر ان بچوں کو منتیں، سماجتیں کرکرکے اپنی چیزوں کو فروخت کرتے دیکھا ہے، تاکہ ان کے گھر چولہے روشن ہوں۔(معاشرے کا ہر ذی شعور میری بات سمجھ گیا ہوگا، کہ وہی بچے کس نفسیاتی دباؤ اور رنگ زردیوں کو جذب کرکے جوان ہوتے ہیں؟)
ہزارہ گی سوسائٹی کا ہر محلہ تقریباً بیس بیس(20/20) گھروں اور ہر گھر کم از کم چھ چھ(6/6) افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی: ہرمحلے میں تقریباً ایک سو بیس(120) افراد رہتے ہیں اور ہر فرد کے لئے تین وقت میں روزانہ تین روٹیاں کافی ہوتی ہیں۔ اس حساب سے اس محلے کو روزانہ تین سو ساٹھ(360) روٹیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیس روپے فی روٹی کے حساب سے ان کی کل قیمت سات ہزار دوسو(7200) روپے بنتے ہیں اور اخراجات نکال کر روزانہ کے حساب سے کم از کم پندرہ سو(1500) روپے اور ماہانہ پینتالیس ہزار(45000) روپے منافع ضرور بچتا ہے، جو محلے میں کسی ایک غریب خاندان کے لئے کافی ہوتا ہے۔
پیچھے جو کام اہلیان محلہ کے لئے باقی بچتا ہے، وہ یہ ہے کہ: بس انہیں اس مستحق خاندان کو اپنے محلے میں تلاش کرنا، جو یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا سکے۔ اس روزگار کی ابتدا کا تخمینہ تیس پینتیس(30/35) ہزار روپوں سے زیاردہ نہیں، جو فی گھرانہ پندرہ سو(1500) روپے چندہ کرکے پورا ہو سکتا ہے، جسے بعداً ماہوار نہایت آسان اقساط(دس روٹیوں؛ یعنی دو سو روپوں کی صورت) میں وصول بھی کیا جا سکتا ہے۔
لوازمات:
ایرانی گیس والا تنور
گیس کا سلنڈر اور
چند آٹے کی بوریاں
اس طرح ہر محلے سے کم و بیش مفلسی اور تنگدستی بھی رخصت ہوگی؛ اوروہاں سے نانبائیوں کی اجارہ داریاں بھی!
پس نوشت: درج بالا میری تحریر کو نانبائی برادری کے خلاف نہ سمجھا جائے۔ بلکہ اسے فقط نانبائی برادری میں ایک غیرذمہ دار ٹولے سے اختیارات چھین کر دوسرے کو سونپا جانا، تصور کیا جائے۔
Latest posts by فدا حسین (see all)