ڈاکٹر حفیظ اللہ عمادی … اسحاق محمدی

 
میری یہ بڑی خوش نصیبی رہی ہے، کہ مجھے ہزارہ قوم کے کئی صف اوّل کے اسکالرز اور رائیٹرز سے براہ راست میل میلاپ کے ذریعے یا بالواسطہ فیض لینے کے مواقع ملے ہیں۔ جن میں شادروان محمد عیسیٰ غرجستانی، شادروان حیدرعلی کارمل، شادروان بابو خدانذر بُرگد، شادروان استاد قسیم اخگر، پروفیسر ناظرحسین، انجینئر اکرم گیزابی، استاد کاظم یزدانی، استاد ربانی، استاد جلال اوحدی، ڈاکٹر زیب النسا اور ڈاکٹر حفیظ اللہ عمادی شامل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے اسم گرامی سے واقفیت اس وقت ہوئی جب مجھے اپنے ایم اے تھیسس لکھنے کے لئے حوالہ جاتی کتابوں کی ضرورت پڑی۔ خوش قسمتی سے امریکہ شفٹ ہونے کے بعد میری سوشل میڈیا کے توسط ان سے رابطہ ہوا اوراب یہ روابط دوستی میں بدل چکے ہیں۔ اتفاق دیکھئے، کہ گذشتہ کئی سالوں سے ہم فون، وٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے رابطے میں ہیں۔ لیکن ابھی تک بالمشافہ ملنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کی ایک وجہ تو جغرافیائی دوریاں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب امریکا کے ایک سرے کیلیفورنیا میں مقیم ہیں اورمیں دوسرے سرے نیویارک میں۔ جبکہ دوسری بڑی وجہ ان کی بے پناہ سفری مصروفیات بھی ہیں۔ کیونکہ وہ سال کے بیشتر اوقات یورپ و ایشیا کے مختلف ممالک کے دورے پر ہوتے ہیں، جہاں وہ ہیومن ڈویلپمنٹ، گڈ گورننس اور سیاسی ہم آہنگی کے حوالے سے مصروف عمل بین الاقوامی این جی اوز کے کاموں کی نگرانی اور ان کے زیر انتظام علمی سیمینارز اور کانفرنسز میں شرکت کرکے اپنے گرانقدر تجربوں سے شرکا کو فیضیاب کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ اس دفعہ کرونا وبا کے دوران ان کا امریکہ میں قیام طویل ہوا، لہٰذا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے خود ان سے معلومات لے کر ان کی یہ مختصر بائیوگرافی اور ان کی علمی کاوشوں سے متعلق درج ذیل تحریر لکھنے کی جسارت کی ہے۔ (تفصیلات کسی اور موقع کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں)
 
ڈاکٹر حفیظ اللہ عمادی کی پیدائش ہزارہ جات کے تاریخی مرکز بامیان کے ضلع شیبر میں ایک عام ہزارہ گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وہیں ضلع شیبر میں حاصل کی۔ لیکن افغانستان میں بگڑتے حالات کے باعث ان کا گھرانہ امریکہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوا، جہاں انہوں نے پیٹرسن ہائی سکول کیلیفورنیا سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کی۔ بعداز آں انہوں نے امریکی یونیورسٹی ایلونیز سے صحافت میں امتیازی نمبروں سے ماسٹر کیا جس کے بعد انہیں ہوائی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالرشپ کی پیشکش ہوئی۔ ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد انہوں نے ایک استاد کے طورپر اسی یونیورسٹی سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ہیڈ ریسرچر کی حیثیت سے(East-West Center) نامی ایک معروف امریکی ادارہ میں شمولیت اختیار کی۔ اسی دوران انہیں ایک اور معروف تھینک ٹینک مرکز(Woodrow Wilson Center) میں بھی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ ان مراکز سے وابستہ رہنے کے دوران انہیں جنوبی ایشیا، مرکزی ایشیا، مشرقی وسطیٰ اور مشرقی یورپ میں آباد اقوام اور ان کے جغرافیائی، سیاسی، اقتصادی و سماجی حالات کے بارے میں وسیع معلومات حاصل کرنے کے مواقع ملے جن کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اسی دوران جناب ڈاکٹر عمادی نے درج ذیل کتابیں لکھیں:
 
1. Repression, Resistance, and Women in Afghanistan.
2.Politics of the Dispossessed:
Superpowers and Developments in the Middle East.
3. Cultures and Customs of Afghanistan.
4. Dynamics of Political Development in Afghanistan:
The British, Russian, and American Invasions.
5. Politics of Development and Women in Afghanistan.
6. China’s Foreign Policy toward the Middle East.
7. Afghanistan’s Gordian Knot:
Analysis of National Conflict and Strategies for Peace.
8. State, Revolution and Superpowers in Afghanistan.
 
مندرج کتابوں کے علاوہ ان کے پچاس سے زائد تحقیقی مقالے بھی دنیا کے معتبر جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران مذکورہ بالا اداروں کے علاوہ متعدد دیگر بین الاقوامی این جی اوز بھی ان کے تجربے اور علمی مقام سے فیض حاصل کرتے آئے ہیں۔ مزید براں انہوں نے انٹرنیشنل آبزرور کے طورپر دنیا کے کئی ممالک کے انتخابات میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ اب ڈاکٹرصاحب، ہزارہ قوم کے حوالے سے ایک ایسے علمی پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں جس کی کامیابی کی صورت میں قوم کے لئے نہایت دوررس مفادات کا حصول یقینی ہے۔ ہزارہ قوم کی تاریخ اور اجتماعی بندھنوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ انہیں ہزارہ قوم بطور خاص افغانستان کی سیاسی قیادت کی کوتاہ نظری اور خودمحوری طرزعمل پر افسوس سے زیادہ غصہ ہے جس کی وجہ سے قوم گزشتہ دو عشروں کے گولڈن مواقع سے کما حقہ فوائد حاصل کرنے میں ناکام رہی اور آج جب دوحہ قطر میں افغانستان کے مستقبل کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے اس میں انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں۔
 
بلاشبہ ڈاکٹر حفیظ اللہ عبادی نہ صرف ایک بین الاقوامی پایہ کے اسکالر ہیں ساتھ ہی وہ ہزارہ قوم کے لئے ایک گران بہا سرمایہ بھی ہیں۔ کرونا وباء کے تھمنے پر ان کا واشنگٹن آنے اور مشترکہ طورپر جناب انجینئر گیزابی سے ملنے کا پروگرام ہے، اگر یہ پروگرام نہ بھی بن سکا تو اس بار میں اس درویش منش اسکالر کی خدمت میں ضرور حاضری دوں گا۔
اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *